جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ سے جڑی سازشی تھیوریز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے چند دنوں سے پی ڈی ایم کے حامی حلقے خاص کر ن لیگی کارکن، لکھاری اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ایک اصطلاح کا بڑے زور شور سے تذکرہ کررہے ہیں ”جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ“۔ اس سے ان کی مراد چیف جسٹس آف پاکستان ہیں اور شائد سپریم کورٹ کے چند ججز اور اسی طرح ہائی کورٹس کے بعض جج صاحبان۔

حکمران اتحاد کا خیال ہے کہ یہ جج صاحبان پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہے ہیں اور انہیں بلاوجہ ریلیف دے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے بعض سازشی تھیوریز بھی گردش کررہی ہیں، ن لیگی احباب انہیں ہوا دیتے اور سوشل میڈیا پر پھیلانے میں حجاب محسوس نہیں کرتے جبکہ مریم نواز شریف نے تو اپنے جلسوں میں یہ سب کچھ کھل کر کہا ہے بلکہ جج صاحبان کی تصاویر تک لگا دیں۔

جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو سمجھیں

” جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ “ سے پہلے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کو سمجھنا ہوگا۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد عسکری اور غیر عسکری اشرافیہ کا ایک حصہ مراد لیا جاتا ہے، ایک خاص قسم کا بیوروکریٹک سٹرکچر، میڈیا ٹائیکون، ٹاپ بزنس آئیکون وغیرہ بھی ان میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کا مقصد پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔

جمہوری ممالک میں منتخب وزیراعظم یا صدر ہر چند برسوں بعد تبدیل ہوجاتا ہے یا تبدیل ہونے کا امکان ہوتا ہے، ایسے میں چند ایک اہم ترین قومی پالیسیوں کے جاری رکھنے کی ذمہ داری اسی اسٹیبلشمنٹ پر ہوتی ہے۔ کوئی آئے یا جائے، نیشنل سیکیورٹی ایشوز اور بعض دیگر اہم معاملات پر ملکی پالیسیاں ایک سی رہتی ہیں۔

پاکستان میں البتہ اسٹیبلشمنٹ سے مراد بنیادی طور پر عسکری اشرافیہ ہی ہے۔ جب یہ چاہیں تو کسی دوسرے شعبہ زندگی کی کسی ممتاز شخصیت کو ساتھ ملا لیں ، ورنہ انہیں کسی کی حاجت نہیں۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا تسلسل اسی لئے ممکن ہوپاتا ہے کہ ان کے پاس منظم اسٹرکچر موجود ہوتا ہے۔ مسلح افواج کا سربراہ کوئی بھی ہو، اسے ایک خاص نظام ورثے میں ملے گا، بریفنگ کا سسٹم، ڈیٹا اینالیسز، مختلف ادوار میں بنائی گئی فائلیں، رپورٹیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اتنا منظم ہوتا ہے کہ کوئی بھی آجائے، نظام چلتا رہتا ہے۔

نیشنل سیکیورٹی ایشوز بھی چونکہ لانگ ٹرم ہوتے ہیں جیسے پاکستان انڈیا تعلقات پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں مستقل ایک سی اہمیت کے حامل رہے ہیں، پاک امریکہ تعلقات، پاک چین تعلقات ،افغان پالیسی، ایٹمی پروگرام، میزائل پروگرام، دوست مسلم ممالک سے تعلقات وغیرہ۔ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن پر ہرچند ماہ بعد پالیسی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ بڑے سوچ بچار اور غوروخوض کے بعد پالیسیاں بنائی گئی ہیں اور انہیں بدلنے کے لئے بھی لمبا چوڑا کام کرنا پڑے گا۔

کیا جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ عملاً ممکن ہے؟

اسٹیبلشمنٹ کے برعکس”جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ“ کی اصطلاح عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس کی دوتین وجوہات ہیں:

سب سے اہم یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کوئی ٹینیور پوسٹ نہیں ہے، یعنی اس عہدے کی کوئی مدت نہیں۔ آرمی چیف کے عہدے کی مدت تین سال ہے۔ کوئی جنرل ہفتے دس دن بعد ریٹائر ہونے والا ہو، اگر اسے آرمی چیف یعنی فور سٹارجنرل بنا دیا گیا تو وہ اگلے تین برسوں کے لئے اسی عہدے پر فائز رہے گا، خواہ اس کی عمر جتنی بھی ہوجائے۔ آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ آف چیفس سٹاف کمیٹی کے عہدے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔

اسی لئے جو بھی چیف آئے گا، اس کے پاس لازمی تین سال ہوں گے، اگر اسے ایکسٹینشن مل جائے جیسا کہ جنرل باجوہ اور جنرل کیانی نے حاصل کی تو یہ مدت چھ سال ہوجائے گی۔ چلیں تین سال بھی فرض کرلیں تو یہ وقت اتنا ضرور ہوتا ہے کہ آرمی چیف اپنے ویژن کو پوری طرح بروئے کار لے آئے۔ وہ اپنے ادارے میں کوئی خاص تبدیلی کرنا چاہے یا کچھ اور تو اسے اتنا وقت میسر ہوتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری میں پہلا فرق

چیف جسٹس کو اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ والی سہولت میسر نہیں۔ سپریم کورٹ کے جج کی عمر ایک خاص حد تک پہنچتے ہی چیف جسٹس ریٹائر ہوجائے گا، چاہے وہ پندرہ دن پہلے ہی چیف جسٹس بنا ہو۔ مختلف چیف جسٹس صاحبان مختلف ادوار کے لئے چیف بنتے ہیں، کوئی چند ماہ، کسی کے پاس سال سوا سال کا وقت ہوتا ہے، ایک آدھ ہی چیف ایسا آتا ہے جس کے پاس تین چار سال ہوں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ ایک ڈیڑھ ماہ کے لئے چیف جسٹس بنے تھے، موجودہ چیف پچھلے سال بنے تھے، ستمبر میں ریٹائر ہوجائیں گے،اگلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے پاس شائد تیرہ چودہ ماہ ہوں گے۔اس لئے کوئی چیف جسٹس چاہے بھی تو وہ لمبی چوڑی پلاننگ نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس وقت ہی کم ہوتا ہے۔

دوسرا فرق

دوسرا فرق یہ ہے کہ آرمی چیف سب جرنیلوں سے سینئر ہوتا ہے، اسے ان پر برتری اور فوقیت حاصل ہے، وہ کسی بھی تھری سٹار جنرل کو نہایت آسانی سے ریٹائر کر سکتا ہے۔ ماضی میں ایسا دوچار بار ہوچکا۔ جنرل حمید گل کو ایسے ریٹائر کر دیا گیا، اسی طرح جنرل طارق پرویز کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے پر اس وقت کے چیف نے ریٹائر کر دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کو ایسا کوئی امتیاز یا حق حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ کے تمام جج ایک سے ہیں، چیف صرف سینئر ترین جج ہے اور اسے کچھ انتظامی اختیارات حاصل ہیں، مگر وہ ساتھی ججوں کو حکم دے سکتا ہے نہ ہی اپنی بات زبردستی منوا سکتا ہے۔

تیسرا فرق

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس لانگ ٹرم ایشوز ہیں، ان کے لانگ ٹرم، شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم سالوشنز وغیرہ بھی۔

عدلیہ میں ڈے ٹو ڈے ایشوز ہوتے ہیں۔ روزمرہ کی بنیاد پر کیس آتے ہیں، انہیں دیکھنا اور فیصلہ سنانا ہوتا ہے۔ جوڈیشری کے پاس ایسا کچھ ہے بھی نہیں جس کے لئے باقاعدہ اسٹیبلشمنٹ قائم ہو اور پھر یہاں پر اتنی تیزی سے چیف جسٹس صاحبان آتے جاتے رہتے ہیں کہ ایسا کچھ ممکن بھی نہیں۔ بسا اوقات تو پانچ سال میں دو، تین اور کبھی چار چیف جسٹس تبدیل ہوجاتے ہیں۔ایسے میں کوئی گٹھ جوڑ ممکن ہی نہیں ہوپاتا۔

اس لئے یہ بعید ازقیاس تھیوری ہے کہ جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ بن چکی ہے یا اپنا وجود رکھتی ہے اور وہ سول حکومتوں کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔ نہیں ، ایسا کچھ بھی نہیں اور مفروضے کے طور پر بھی ایسا ہونا ممکن نہیں۔

پی ڈی ایم کو عدلیہ سے متعلق تحفظات کیوں؟

بظاہر تو اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے۔ اس وقت ملک کی تقریباً تمام قوتیں ، ادارے اور محکمے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف یکسو اور متحد ہیں۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں اور ان کے اتحادی پیپلزپارٹی وغیرہ سب عمران خان کو ہر حال میں سیاسی طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اسے نااہل کر کے جیل پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں باقی سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ صرف عدلیہ ہی ایک ایسا آئینی ادارہ ہے جہاں سے عمران خان کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اسی وجہ سے عدلیہ کو ہدف بنایا گیا ہے۔

اب یہی دیکھ لیں کہ الیکشن کمیشن پہلے الیکشن کرانے پر تیار نہیں تھا، نگران حکومتیں اور گورنر صاحبان بدترین غفلت اور بے پرواہی کا مظاہر ہ کر رہے تھے۔ آخر عدلیہ کے پاس معاملہ گیا اور اس نے فیصلہ دیا۔ تب مجبور ہو کر الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن کی ڈیٹ تیس اپریل مقرر کی جبکہ کے پی میں تو گورنر نے خوفناک تعصب اور بدنیتی دکھاتے ہوئے پورا ایک ماہ الیکشن آگے کر اٹھائیس مئی کی تاریخ دے دی۔

تب بھی ہر ایک کو معلوم تھا کہ پی ڈی ایم اور نگران حکومتوں نے الیکشن نہیں کرانے ۔ کیوں نہیں کرانے؟ صرف اس لئے کہ بدترین شکست ان کے سامنے کھڑی ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پنجاب اور کے پی دونوں جگہوں پر تحریک انصاف دو تہائی اکثریت سے جیت جائے گی۔

خیر کسی نہ کسی طرح الیکشن کی طرف معاملہ لڑھک رہا تھا کہ اچانک الیکشن کمیشن نے بغیر کسی معقول وجہ اور دلیل کے الیکشن آٹھ اکتوبر تک یعنی پانچ ماہ آگے کر دیا۔ اس پر تحریک انصاف نے جتنا شور مچایا، کسی نے نہیں سنا۔ عدلیہ کے سوا تحریک انصاف کے پاس شنوائی کی کوئی اور جگہ موجود نہیں۔ سپریم کورٹ ہی انہیں کسی قسم کا ریلیف دے سکتی ہے۔ اس لئے بھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف کیوں؟

تحریک انصاف نے سپریم کورٹ ہی جانا تھا اور وہ کیا کرتی ؟احتجاجی ریلی اسے نکالنے نہیں دیتے، جلسہ وہ بمشکل کر پائے۔ عمران خان اور دیگر رہنماﺅں کو ہر طرف سے مقدمات میں جکڑا ہوا ہے تاکہ وہ کچھ اور سوچ بھی نہ پائیں۔ عدلیہ ہی ان کے لئے تحفظ کی واحد جگہ ہے اور عدلیہ ہی ہمیشہ دنیا بھر میں مظلوموں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ انصاف کے لئے عدلیہ کے پاس ہی جاتے ہیں۔

حکومت اور ان کے اتحادی اسی لئے عدلیہ پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور بعض دیگر جج صاحبان کو اس قدر متنازع بنا دیا جائے کہ وہ کوئی بڑا اور جرات مندانہ فیصلہ کر نہ پائیں۔ اسی وجہ سے مخصوص ججوں کے نام لے کر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، انہیں متنازع بنانے کے لئے مشکوک اعترافی بیانات کی ویڈیوز تک چلوائی گئیں۔ یہ سب افسوسناک تھا۔

سپریم کورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک واضح تقسیم موجود ہے۔ اس کی وجہ بدنیتی یابدعنوانی نہیں۔ دراصل یہ دو مختلف سکول آف تھاٹ ہیں۔ ایک سکول آف تھاٹ مفاد عامہ کے معاملات پر ازخود یعنی سوموٹو نوٹس لینے کا حامی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے یہ روایت شروع ہوئی، بعد کے چیف جسٹس صاحبان کی اکثریت نے اسے جاری رکھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے اس کا غلط استعمال بھی کیا اور اس اختیار کو متنازع بنا دیا، اسی وجہ سے ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے دور میں ایک بار بھی سوموٹو نہیں لیا۔ بہرحال سوموٹو لینے والے چیف جسٹس اور جج صاحبان کا یہ خیال ہے کہ رولز اور پروسیجر وغیرہ اہم ہے، مگر مفادعامہ کا ایشو بہرحال ہر چیز پر ترجیح رکھتا ہے اور مظلوم کو ریلیف ملنا چاہیے۔ اس وقت چیف جسٹس کے علاوہ سینئر ججوں میں سے جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مظاہر نقوی وغیرہ اس سکول آف تھاٹ کے حامی لگ رہے۔

دوسرا سکول آف تھاٹ کا موقف ایک خاص قسم کے آئیڈیلسٹ اصول پسندی پر مبنی ہے۔ ان میں سے بعض غیر ضروری سوموٹو لینے کے حامی نہیں، آئین کے آرٹیکل 184-3کے استعمال کے حوالے سے بھی ان کے خیال میں خاص پروسیجر ہونا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے دو روز قبل ہی اپنے ایک فیصلے میں بہت تفصیل سے یہ سب کچھ بتایا ہے۔ ان کے خیال میں صرف چیف جسٹس کو یہ نوٹس نہیں کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لئے خصوصی بنچ بھی نہیں بنانے چاہیے، یہ سب کچھ سینئر ججوں کی ایک کمیٹی کرے ۔

جسٹس منصور علی شاہ اپنے بعض عدالتی کمنٹس اور فیصلوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر آرٹیکل 184-3کے تحت سوموٹو لینا ہے تو پھر کسی خاص بنچ کے بجائے فل کورٹ یعنی پوری سپریم کورٹ اس معاملے کو سنے۔ یعنی معاملہ اتنا اہم ہو کہ پوری سپریم کورٹ سب کام چھوڑ کر وہی کیس سنے۔ سینئر ججوں میں سے اس سکول آف تھاٹ کے حامیوں میں جسٹس طارق مسعود اور جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل وغیرہ کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض فاضل جج صاحبان سیاسی معاملات کو عدلیہ میں لے آنے کے بجائے پارلیمنٹ میں ڈسکس کرنے کے حامی ہیں اور ان کے مطابق سیاستدان سیاسی مسائل کو خود ہی سلجھائیں۔

آئندہ کیا ہوسکتا ہے؟

اللہ نہ کرے مگر مفروضے کے طور پر سہی ایک خطرہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں تقسیم گہری ہوجائے اور خاکم بدہن عدلیہ کے دو دھڑے ایک دوسرے کے سامنے آجائیں۔

تاہم فاضل جج صاحبان کے طرز فکر اور اصولی نقطہ نظر سے واقف لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ صرف دو مختلف اسکول آف تھاٹ کا فکری اختلاف ہے اور ججوں کے چیمبرز کے اندر تک کے بحث مباحثے ہیں، یہ جج صاحبان کبھی عدلیہ کو تماشا نہیں بنائیں گے اور نہ ہی کسی سیاسی دھڑے کی ترغیب کا شکار ہوں گے۔ ہمیں یہی امید کرنی چاہیے کہ ان شااللہ ایسا ہی ہوگا اور تمام معاملات افہام وتفہیم سے نمٹا لئے جائیں گے۔

الیکشن کے التوا کا کیس

چیف جسٹس نے اس ایشو پر پانچ رکنی لارجر بنچ بنایا تھا، اس میں سے ایک جج جسٹس امین الدین نے معذرت کر لی ہے،وہ بنچ چھوڑ چکے ہیں۔،دوسرے جج جمال مندوخیل نے بھی جمعہ کو معزرت کر لی۔ اس وقت بنچ چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ اب اگلی سماعت پیر کو ہوگی، ممکن ہے کہ یہی بنچ پیر ہی کو اسی کیس کا فیصلہ سنا دے، یا ممکن ہے اس ویک اینڈ پر ججز کی باہمی ڈسکشن سے فل کورٹ برآمد ہوجائے یا کچھ اور۔ بہرحال اس کیس کا اب فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہی ہوگا۔

پھر ممکن ہے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی عدالتی اصلاحات کا بل عدالت میں چیلنج ہوجائے اور اس پر سات رکنی یا نو رکنی لارج بنچ یا فل کورٹ بیٹھ جائے۔ اگلے چند دن عدلیہ کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کو خاصا کام کرنا پڑے گا۔ ملک وقوم کے لئے بہت اہم بعض ایشوز کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کو کرنا ہے۔

یہ اعصاب کی جنگ بھی ہے کیونکہ سپریم کورٹ پر پی ڈی ایم حکومت اور ان کے تمام تر اتحادی حملہ آور بھی ہیں۔ اللہ کرے سب ٹھیک رہے اور اس بحران میں ملک وقوم کا نقصان نہ ہو بلکہ بہترین کی طرف راستہ نکلے، آمین۔

Related Posts