ظلم کی شدت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میں سید جعفر رضا کی کتاب اسلام کا خلاصہ  کے اختتام کا حوالہ دوں گا کیوں کہ اس میں یہ بات بالکل ٹھیک اور واضح لکھی ہے کہ اسلام دراصل انصاف کا نظام ہے۔

“اگر مجھ سے صرف ایک لفظ میں اسلام کی فطرت اور اصول اسلام کا خلاصہ بیان کرنے کے لئے کہا گیا تو میں کہوں گا(انصاف) اسلام سے مراد انصاف کا پیغام ہے۔ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے اور اس کے احکامات اور حکم کی تعمیل کرکے خالق سے انصاف کرنا، انصاف ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے نبیؐ ہیں، آپ ؐ فرماتے ہیں کہ ہر کسی کے ساتھ انصاف کرو، اپنے نفس کو انصاف، گناہ اور انا پرستی سے محفوظ رکھ کر انصاف کیا جاسکتا ہے۔جسم کو صحت مند اور بیماریوں سے پاک رکھنا بھی انصاف میں شمار ہوگا۔

تقویٰ اختیار کرنا، ازدواجی دائرہ کارمیں انصاف، والدین کے ساتھ انصاف کرنا کیونکہ وہ ہمارے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں ہماری بھلائی ہو، ہمارے لئے بہتر ہو۔خاندانی زندگی گزارنے کا بوجھ بانٹنے والے شریک حیات سے انصاف کریں۔

زندگی کو صحیح اصولوں پر گزارنے کے لئے زندگی میں صحیح سمت اختیار کریں، پڑوسیوں کے ساتھ انصاف کریں، ان کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوکر انصاف کریں۔ اپنی صحت کو بحال رکھئے اور بیماریوں کو شکست دیکر اپنے جسم کو انصاف فراہم کریں۔ اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کریں۔

ملک کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیارر ہوکر مادر ملت سے انصاف کریں، اس کی ترقی میں حصہ ڈال کر پوری انسانیت کے ساتھ انصاف کریں۔ اپنے پاس موجود علم کو دوسروں تک پہنچائیں انصاف کے ساتھ، انسانیت کی خدمت کریں بلا تفریق تاکہ دوسرے افراد بھی اپنی زندگی صحیح طور پر گزار سکیں۔ لہٰذا انصاف اسلامی اصولوں کی بنیاد ہے۔

حدیث الکدسی، “اے میرے بندوں، میں نے اپنے لئے ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور آپ کے درمیان اس کو حرام قرار دے دیا ہے،لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں مظلوموں کی مدد کرنے کی تلقین کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور شائستگی کے ساتھ پیش آؤ، اللہ تعالی ہمیں ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے منع کر رہا ہے کیونکہ یہ ہماری محبت،رحمت اور شفقت کے جذبے کے خلاف ہے۔

مزید یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ اس نے ہمیں عبادت اور لوگوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ اس نے ہمیں کسی لیڈرکی حیثیت سے کام کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے یا کسی دوسرے کے ساتھ غلط کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔

اس حدیث کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نصیحت کی ہے ہر انسان کے لئے کہ وہ مذہبی عقیدے سے بالاتر ہو۔کسی انسان کے ساتھ بد سلوکی نہ کرے، ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھے اور کسی ظالم کا ساتھ نہ دے۔

ایک حدیث میں، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بتاتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مذہبی عقیدے سے قطع نظر کسی کے ساتھ غلط کرنے کا حق نہیں رکھتا، حضور ؐ اس فاسق شخص کے خلاف استغاثہ کا کام کریں گے۔ بحیثیت مسلمان، ہم چاہتے ہیں کہ حضورؐ قیامت کے روز ہماری شفاعت فرمائیں، اور ہمیں جنت میں داخل کرائیں، تو ہمیں بھی چاہئے کہ مظلوم کا ساتھ دیں ظالم کا نہیں۔

شیخ ابن تیمیہ نے بیان کیا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ایسی قوم کو برکت عطا کرتا ہے جو انصاف پسند ہوتی ہے اور ایسی قوم سے نعمتیں چھین لیتا ہے جو انصاف نہیں کرتی،اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک انصاف پسند قوم کی حمایت کرے گا۔

اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ختم کردے گا‘ چاہے وہ مومن یا مسلمان قوم ہی کیوں نہ ہو۔ شیخ ابن تیمیہ کا ماننا تھا کہ اس دنیا میں، لوگ کفر کے باوجود بھی انصاف کے تحت ترقی کریں گے لیکن کچھ لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی نا انصافی کے مرتکب قرار پائیں گے۔

ہمیں ظلم سے بچنے کے لئے ہر وقت اللہ کی مدد مانگنی چاہئے، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظلم و ستم سے بچنے کے لئے باقاعدگی سے دعا کیا کرتے تھے۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہمیں حضور ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے۔

میں اس کالم کے ذریعے شیخ عمر سلیمان کا شکریہ ادا چاہوں گا کہ انہوں نے یہ مضمون لکھنے کے لئے ایک راہ دکھائی۔ ان کے 40 لیکچرز انصاف، احادیث برائے معاشرتی انصاف پر مبنی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں اور اسلام کی خدمت کا بدلہ دے۔ میں نے جو کچھ بھی اچھا لکھنے کی کوشش کی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے باعث ممکن ہوا ہے۔

Related Posts