جہنم رسید کرنے کا کلچر اور دعوت دین کا درست اسلوب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور میں ایک خاتون عربی خطاطی کے پرنٹ والا لباس پہن کر بازار آگئیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو دین کا باقاعدہ شعور نہ رکھنے والے معاشرے میں نکل سکتا ہے۔

خاتون کو ہراساں کرنے والوں نے اولاً تو یہ شک ظاہر کیا کہ یہ قرآنی خطاطی ہے، اور جب واضح ہوگیا کہ یہ قرآنی آیت نہیں تو ایف آئی آر کے لئے یہ موقف اختیار کرلیا کہ چونکہ یہ خطاطی قرآنی خطاطی سے مشابہت رکھتی ہے لہٰذا یہ قرآن مجید کی توہین ہوگئی۔ سو توہینِ قرآن کی ایف آئی آر کاٹی جائے۔ واقعے کا المناک پہلو یہ ہے کہ دین کے نام پر روٹیاں توڑنے والے ان علماء کو بھی خاتون کے دفاع میں سامنے آنے کی توفیق نہ ہوئی جو شرعی امور کا شعور رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ کس دلیل سے کہا جا رہا ہے کہ قرآنی آیات والے کپڑے کا لباس زیبِ تن کرنا توہین قرآن ہے؟ توہین تو کسی چیز کو کم مرتبے پر گرانے کو کہتے ہیں۔ کیا انسانی جسم اتنا گھٹیا مقام ہے جس پر قرآنی آیات والا کپڑا ڈالنے سے قرآنِ مجید کی توہین ہوجاتی ہے؟ یہ کتاب تو نازل ہی انسانوں کے لئے ہوئی ہے۔ عجیب منطق نہیں کہ دکان پر تو قرآنی آیات کی خطاطی والے ڈیزائن استعمال ہوسکتے ہیں مگر انسان پر نہیں ۔ جب عقل گھاس چرنے چلی جائے تو پھر ایسے ہی احمقانہ مؤقف سامنے آتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن سینے کے اندر تو رکھا جاسکتا ہے مگر سینے کے اوپر نہیں۔ سو سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ قرآنِ مجید کی آیات والا لباس قطعاً ممنوع نہیں۔ ایسا لباس پہننے والے کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ پھر باوضوء بھی رہنا پڑے گا کیونکہ قرآن مجید کو بے وضوء چھونا جائز نہیں۔ اور اس لباس کے ساتھ بیت الخلاء وغیرہ جانے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ اب آجایئے اس پہلو کی جانب کہ مذہب کے نام پر جہالت کے یہ مظاہرے ہمارے ہاں کیوں ہوتے ہیں؟

یہ مسائل برٹش ہندوستان کے پیدا کردہ ہیں۔ برٹش دور میں علماء پڑھنے پڑھانے کے ساتھ تحریکِ آزادی کا بھی حصہ بن گئے۔ یوں ان کا مزاج “مجاہدانہ و غازیانہ” بنتا چلا گیا۔ اب اس مزاج کا فطری نتیجہ ہی لڑنا اور مارنا ہوتا ہے۔ چنانچہ باغیانہ تقاریر اور برٹش سرکار سے برسرپیکار رہتے رہتے ان کا چلن ہی یہ بن گیا کہ برطانیہ کو یہاں سے گئے 75 سال ہوگئے مگر مولوی اب بھی کسی نہ کسی سے برسرپیکار ہی ہے۔ یہ صبح اٹھتا ہے تو یا تو پہلے سے طے شدہ کسی دشمن پر نیا دن بھی صرف کرنے لگتا ہے یا پھر کوئی نیا دشمن ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ کبھی غور کیجئے، آپ کو مولویوں کے ہاں یہ جملہ عام ملے گا ”فلاں کے خلاف کام کرنے کی بہت ضرورت ہے“ یا پھر یہ کہ میں فلاں کے خلاف کام کر رہا ہوں۔

کسی حق میں کام کرنا اس کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ یہ لڑنے بھڑنے کے اس مزاج بلکہ اب کلچر کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ بڑے فخر سے اپنے مدارس کو بھی قلعے کہنے لگے ہیں۔ ”اسلام کے قلعے“ اور ان میں جو زیادہ شدت پسند ہو اسے یہ “جرنیل اسلام” کا ٹائٹل عطاء کر دیتے ہیں۔ کیا جرنیلی دین کے عالم سے بڑا منصب ہے؟ قلعہ ہونا اتنا مقدس ہے کہ مدرسے جیسی مذہبی سرگرمی والے ادارے کو قلعہ کہنے سے اس کی شان بڑھتی ہے؟

مولوی کے مزاج کا یہی پہلو تھا جس کا فائدہ اٹھا کر جرنیلوں نے پہلے انہیں جنگوں میں لڑایا اور جب مطلب پورا ہوگیا تو پھر خود ہی ان کے خلاف آپریشن شروع کرکے انہیں عبرت کی مثال بنا دیا۔ مگر مولویوں کا جرنیلی والا کیڑا اب بھی نہیں مرا۔ اتنے بڑے بحران سے گزر کر بھی انہیں عقل نہ آئی۔ اور یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اپنے اصل کام یعنی علمی سرگرمی کی جانب لوٹ جائیں۔

اس چلن کا نقصان یہ ہے کہ لوگ دین سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔ جبرتو اپنی ادنیٰ ترین حالت میں بھی مضر ثابت ہوتا ہے، چہ جائیکہ کہ یہ جارحانہ انداز سے اپنا اظہار کرے۔ مثلاً دنیا کا ہر حکم جبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں ہی موقع ملے حکم کی خلاف ورزی ضرور ہوتی ہے۔ ہم اپنے گھروں میں عام دیکھتے ہیں کہ ماں نے بیٹے کو حکم دیا کہ بازار سے فلاں چیز لادو، تو بیٹا کہدیتا ہے

“میں نہیں لا رہا۔ ہر وقت مجھے ہی کام کہتی ہو، فلاں سے کیوں نہیں منگواتیں؟”

بیٹا یہ انکار کیوں کر رہا ہے؟ کیونکہ جبر ہے۔ ہر وہ چیز جبر ہے جو اپنی مرضی کے خلاف کرنی پڑے۔ ایک اور پہلو دیکھئے کہ یہی لڑکا باپ سے یہ جملہ نہیں کہہ پاتا کیونکہ وہاں ڈنڈا موجود ہے۔ یوں یہ تعمیل تو کر لیتا ہے مگر یہ تعمیل اختیاری نہیں جبری ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تعمیل نہ کی تو شامت آجائے گی۔ لیکن انتہائی قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اسی دنیا میں ایک ہستی ایسی بھی ہے جسے یہی لونڈا دن رات کہتا ہے

“جانو ! میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں، تم حکم تو کرو”

اب یہاں کوئی جبر نہیں۔ یہ جانو کا ہر حکم ماننے کو یوں تیار بیٹھا ہے کہ بس انتظار کرتا ہے کہ کب جانو کوئی فرمائش کرے گی۔ ادھر جانو نے حکم دیا، ادھر یہ اس کی تعمیل میں جت گیا۔ جانو اسے سو بار بھی بازار بھیجے گی تو یہ بصد شوق جائے گا۔ اور یہ ادنیٰ ترین درجے میں بھی کوئی جبر نہیں۔ جانو کے ہر حکم کی تعمیل یہ اپنے بے تابانہ شوق سے کر رہا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہ کہ جب کسی سے محبت ہوجائے تو اس کا حکم جبر نہیں رہتا، اور اس کے ہر حکم کی تعمیل بصد شوق ہوتی ہے۔ اور یہی وہ راز ہے جس کا فہم نہ آج کے مولوی کو ہے اور نہ ہی داعی کو۔

جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت دل میں پیدا کیے بغیر دینی احکام منوانے کی کوشش ہوگی تو یہ بھی جبر ہی ہوگا۔ نتیجہ یہ کہ جہاں ڈندا موجود ہوگا وہاں تو شرعی احکام کی پابندی ہوگی اور جوں ہی ڈنڈا نظروں سے اوجھل ہوگا، حکم نظر انداز ہوجائے گا۔ اس کی مثال ہم اپنے بچوں کی صورت میں عام دیکھتے ہیں۔ باپ کے خوف سے نماز پڑھنے والا بچہ باپ کی غیر موجودگی میں نماز چھوڑتا ہے کہ نہیں؟ ہمارا پورا نظامِ دعوتِ دین ہی جبر پر مبنی ہوچکا۔ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ نماز پڑھئے ورنہ اللہ رزق تنگ کردے گا۔ نماز پڑھئے ورنہ قبر میں شامت آجائے گی۔ نماز پڑھئے ورنہ جہنم ٹھکانہ بن جائے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ترکِ نماز پر یہ ہوتا ہے۔ مگر یہ محض ایک خبر ہے۔ اگر نماز صرف اس لئے پڑھنی ہے کہ ان ممکنہ نتائج سے بچا جاسکے تو بلاشک و شبہ یہ بھی جبر ہے۔

چنانچہ دعوتِ دین کا درست اسلوب یہ ہے کہ پہلے ہم لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت جگا دیں۔ جب یہ محبت جاگ گئی تو اب یہ شخص نماز اس لئے پڑھے گا کہ یہ اس کا اسی طرح کا اظہار محبت ہوگا جو نوجوانوں کو جانو سے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ جو تہجد گزار ، نوافل اور قرآنِ مجید کی تلاوت کا ذوق رکھنے والے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں یہ درحقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والے ہی تو ہوتے ہیں۔ کبھی غور کیا ہے انہیں ”اللہ کے محبوب بندے“ کیوں کہا جاتا ہے؟ کیونکہ ان کا رشتہ جبر نہیں، محبت والا ہے۔ جب ایک بار محبت پیدا ہوجائے تو پھر بندہ مجازی جانو کے لئے بھی آسمان سے تارے توڑ لانے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ تو سوچئے، عشقِ حقیقی میں کیفیت کیا ہوتی ہوگی؟صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جانیں کیوں قربان کرتے تھے؟ کیونکہ انہیں ان سے محبت ہوگئی تھی۔

اب سوال یہ آجاتا ہے کہ اس درست اسلوب کے ساتھ کام کا آغاز کیسے کیا جائے؟ تو ہمیں اس کی دو صورتیں نظر آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ خود کو دوسروں کے لئے اتنا مہربان بنا لیجئے کہ ان میں بھی آپ جیسا بننے کا شوق پیدا ہوجائے اور ان میں یہ سوچ جنم لے لے کہ دینداری برسرپیکاری کا نہیں محبت و الفت کا نام ہے۔ یہ سوچ کہ فلاں شخص اس لئے اتنا اچھا ہے کہ دیندار ہے۔اس نے اپنی خوبیاں دین سے حاصل کی ہیں۔ مگر اس سے زیادہ اہم دوسری صورت ہے۔ اگر وہ پیدا کرلی گئی تو آنے والے وقت میں معاشرہ پورے کا پورا بدل جائے گا۔ وہ دوسری صورت یہ ہے کہ جو نابالغ بچے آپ کے گھر موجود ہیں، ان کی ذہنی سطح کے مطابق دینی تربیت شروع کر دیجئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بچوں کو کہانیوں میں بے حد دلچسپی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں کو سٹوری بکس پابندی سے مہیا کی جاتی ہیں۔

اپنے بچوں کو انبیاء علیھم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے واقعات پر مبنی وہ لٹریچر بتدریج مہیا کیجئے جو بچوں کے لئے ہی لکھا گیا ہے۔ بچے اس کا بہت گہرا اثر لیں گے اور انہیں خود بخود ہی ان ہستیوں سے محبت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ وہ ان کے آئیڈیلز بن جائیں گے۔ اور ان میں ان جیسا بننے کا ذوق پیدا ہوگا۔ یوں اب جب ان کے سامنے دینی احکام آئیں گے تو یہ کسی جبر کے تحت نہیں بلکہ بصد شوق انہیں انجام دیں گے۔ آپ گھر پر نہ بھی ہوئے تو آپ کا بچہ نماز کے وقت مسجد میں ہی ہوگا۔ اور یہ بھی طے ہے کہ جب وہ بڑا ہوگیا تو کسی خاتون کو گھیر کر یہ نہیں کہے گا کہ تم نے خطاطی والا لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ آؤ تمہیں جہنم رسید کروں۔

Related Posts