کراچی ٹیسٹ میں کیا کرشمہ دکھایا گیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی ٹیسٹ میں کیا کرشمہ دکھایا گیا
کراچی ٹیسٹ میں کیا کرشمہ دکھایا گیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کون کہہ سکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم پہلی اننگ میں ڈیڑھ سو سے کم رنز پر ڈھیر ہوجانے کے بعد دو دن بیٹنگ کر کے ساڑھے چار سو کے لگ بھگ رنز بنا دے گی؟ ہماری روایت تو یہی رہی ہے کہ پہلی اننگ میں اگر بیٹنگ بری طرح ناکام ہوئی تو دوسری اننگ میں بھی اس کا ری پلے دیکھنے کو ملے گا۔

خاص کر جب آسٹریلیا جیسی اچھی مضبوط باؤلنگ مدمقابل ہو۔ کئی سال پہلے عرب امارات کی پچوں پر ہم نے یہ بہت برا ریکارڈ بھی بنارکھاہے کہ ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سو سے کم رنز پر آؤٹ ہوئے اور بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔

کراچی ٹیسٹ میں بدھ کے روز مگر کرشمہ تخلیق ہوا۔ پاکستانی بیٹرز نے شاندار بیٹنگ کی، بڑی پارٹنر شپ بنائیں اور ایک یقینی ہارا ہوا ٹیسٹ میچ بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ میچ اگر ٹی وی پر خود نہ دیکھا ہوتا تو یقین نہ آتا۔ وکٹ پر ٹھیرنے والے بیٹرز اظہر علی، فواد عالم وغیرہ اگر کئی گھنٹے کھیلتے رہیں تو سمجھ آتی ہے، ان کا اسٹائل ہی ایسا ہے۔

بابر اعظم جیسا بلے باز جو وائٹ بال کرکٹ میں شاندار ریکارڈ رکھتا ہے، مگر ٹیسٹ میں مطلوبہ کارکردگی نہیں دکھا پایا، جو خاصے عرصے سے ٹیسٹ میں طویل اننگ نہیں کھیل پایا،اس کی کرشمہ سازی نے سب کو حیران کر دیا۔

ٹیسٹ میچ کی چوتھی یعنی آخری اننگ میں رنز کرنا آسان نہیں ہوتا،عام طور پر آخری اننگ میچ کے آخری دن کھیلی جاتی ہے جب وکٹ نسبتاً خراب ہوتی اور دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ انضمام الحق کی سنچریوں میں زیادہ تر قومی ٹیم کی دوسری اننگ میں بنیں، یہ انضمام کا کریڈٹ ہے۔

انضمام کی مشہور اننگ کون بھول سکتا ہے جب اس نے آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کو فتح دلوائی تھی، تب مشتاق احمد ساتھی کھلاڑی تھے۔ بنگلہ دیش کے خلاف بھی انضمام نے ہارا ہوا میچ جتوایا تھا، تب بھی وہ میچ کی چوتھی اننگ ہی تھی۔

مجھے دو اور فتوحات یاد آ رہی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف عمران خان نے میچ کی چوتھی اننگ میں توصیف احمد کے ساتھ کئی گھنٹے وکٹ پر ٹھیرکر میچ ڈرا کیا تھا۔ویسے توصیف بھی کمال تھے، سپیشلسٹ آف سپنر، گیارھویں نمبر پر کھیلنے آتے، مگر کئی میچز میں وکٹ پر ٹھیر کر ٹیم کی بیٹنگ کو سہارا دے جاتے۔ آسٹریلیا میں بہت تیز باؤنسی پچ پر ساڑھے تین گھنٹے وکٹ پر کھڑے رہے اور سٹریٹ بیٹ سے ایسی بیٹنگ کی کہ کپتان اس شام نامور بلے باز کو توصیف سے سیکھنے کا مشورہ دے رہے تھے۔

ایک اور میچ میں عمران خان نے لیفٹ آرم سپنر مسعود انور کے ساتھ مل کر میچ بچایا تھا۔ یہ ستمبر 1990تھا۔مسعود انور بدقسمت کھلاڑی تھے، صرف یہی ایک ٹیسٹ کھیلا۔ تب چند ہفتوں بعد پاکستانی ٹیم بھارت جانے والی تھی۔ یہ دورہ ہوتا تو مسعود انور یقینی شامل ہوتے، کسی وجہ سے دورہ نہ ہو پایا اور مسعود کو بھی پھر ٹیسٹ کھیلنے کا موقعہ نہ ملا۔

بابر اعظم نے کراچی ٹیسٹ میں کئی گھنٹے تک وکٹ پر ٹھیر کر شاندار 196رنز بنائے، بتایا جا رہا ہے کہ اس اننگ میں انہوں نے بہت سے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ وہ پہلے کپتان ہیں جنہوں نے میچ کی چوتھی اننگ میں اتنے زیادہ رنز بنائے، اس سے پہلے یہ ریکارڈ مائیک ایتھرٹن کے پاس تھا، جس نے 185 رنز بنائے تھے۔

بابر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مثبت، دلیرانہ اور تکنیکی اعتبار سے بہترین اننگ کھیل کر ٹیم کا مورال اور جذبہ کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پنڈی ٹیسٹ میں یہ لگا کہ ٹیم ڈرے ہوئے، دفاعی مائنڈ سیٹ میں ہے۔ کراچی میں پہلی اننگ میں ناکامی کے بعد خطرہ تھا کہ بیٹنگ دوسری بار بھی ڈھیر ہوجائے گی بلکہ شائد لاہور میں بھی اسی طرح دبی رہے۔ بابر نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

نوجوان اوپنر عبداللہ شفیق نے شاندار اننگ کھیل کر ہر ایک کو متاثر کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ پی ایس ایل میں عبداللہ شفیق نے جارحانہ انداز میں بیٹنگ کر کے اپنے آپ کو ٹی ٹوئنٹی اوپنر ثابت کیا، پہلے انہیں اس فارمیٹ کے لئے ناموزوں تصور کیا جاتا تھا۔

انہوں نے ایک ٹی ٹوئنٹی ففٹی تو صرف پچیس گیندوں میں بنائی۔ اب ٹیسٹ فارمیٹ میں عبداللہ شفیق نے ٹیسٹ بیٹنگ کر کے بھی منوا لیا۔پنڈی ٹیسٹ میں وہ سنچری بنا چکے ہیں، اس بار صرف چار رنز سے محروم رہے، مگر عبداللہ شفیق نہ کھڑے رہتے تو شائد بابر بھی اتنا پرفارم نہ کر پاتے۔

محمد رضوان پچھلے کچھ عرصے سے ٹیسٹ فارمیٹ میں زیادہ رنز نہیں کر پا رہے تھے۔ اس میچ میں انہوں نے میچ بھی بچایا اور شاندار ناٹ آؤٹ سنچری بھی سکور کی۔ رضوان بہت محنتی اور سو فیصد سے زیادہ ٹیم کو دینے والے کھلاڑی ہیں۔ بابرٹیسٹ کپتان جبکہ رضوان نائب کپتان ہیں، ان کا کمبی نیشن شاندار ہے۔

بعض کمزوریاں بھی دیکھی گئیں۔ امام الحق نے پنڈی ٹیسٹ میں دونوں اننگز میں سنچریاں کیں، وہاں کی بیٹنگ پچ کی وجہ سے انہیں زیادہ سراہا نہیں گیا تو امام الحق نے برہم ہوکر جارحانہ بیانات دئیے۔ ستم ظریفی کہ کراچی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں وہ بری طرح ناکام ہوئے اور یوں ناقدین کو جواب دینے کے بجائے خود شرمندہ ہوئے۔ کھلاڑیوں کو میڈیا میں جواب دینے کے بجائے میدان میں پرفارم کرنا چاہیے۔

فواد عالم دونوں اننگز میں ناکام ہوئے۔ دوسری اننگ میں انہیں آسٹریلین باؤلرز نے باقاعدہ ٹریپ کر کے آؤٹ کیا۔ ان کے عجیب وغریب بیٹنگ سٹانس کی کمزوری ایک بار پھر سامنے آئی۔ فواد عالم اپنے اس مختلف بیٹنگ سٹانس کے باوجود ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے بعد شاندار کھیل پیش کر چکے ہیں۔

انہوں نے مختلف پچوں پر عمدہ سنچریاں بنائی ہیں، مگرجس طرح وہ آخری وقت میں اپنی بیٹنگ پوزیشن بدلتے ہیں، اگر کوئی ذہین باؤلر ہو تو وہ اسی طرح پریشان کر سکتا ہے، جیسے آسٹریلین کپتان کمنز نے کیا۔ فہیم اشرف بھی بیٹنگ میں دونوں بار ناکام ہوئے، فہیم کو اپنی بیٹنگ پر پھر سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور چیز جو دونوں ٹیسٹوں میں دیکھی گئی، وہ بعض کھلاڑیوں کارن آؤٹ ہونا ہے۔ ٹیسٹ میچز میں رن آؤٹ ہونا تو کسی جرم سے کم نہیں۔ جب وقت کی کمی نہیں اور تیز کھیلنے کا دباؤ بھی نہیں تو رن آؤٹ کیوں ہوا جائے؟ یہ درست کہ بیٹرز کو سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا کہا جاتا ہے، سنگل انہیں لینے چاہئیں، مگر وکٹ کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ بیٹنگ کوچز کو اس پر کام کرنا چاہیے، وکٹوں کے دومیان رننگ بہتر کی جائے۔

دونوں کپتانوں نے بعض غلطیاں بھی کیں۔ بابر سے آسٹریلیا کی پہلی اننگ میں غلطی ہوئی جب عثمان خواجہ اور ناتھن لیون کھیل رہے تھے، تب گیند ریورس سوئنگ ہونا شروع ہوئی، مگر بابر نے گیند شاہین، حسن علی سے لے کر سپنرز کو تھما دی۔ وجہ یہ تھی کہ دس بارہ اوورز کے بعد نئی گیند لینی تھی، بابر چاہتا ہوگا کہ فاسٹ باؤلر تب تک تازہ دم ہولیں۔ اس کا مگر نقصان ہوا، بعد میں نئی گیند بھی فائدہ نہ دے سکی۔

یہی غلطی آسٹریلین کپتان نے بھی کی، گیند ریورس ہونے کا امکان تھا، مگر پیسرز کے بجائے سپنر لگائے رکھے۔ وقار یونس تب کمنٹری کر رہے تھے، انہوں نے دو تین بار نشاندہی کی۔ وقار یونس سے زیادہ ریورس سوئنگ کا ماہر کون ہوسکتا ہے؟ پیٹ کمنز نے ایک اور غلطی تب کی،جب لیون نے بابر اور فہیم کو دو مسلسل گیندوں پر آؤٹ کر دیا۔

تب دوسری طرف سے مچل سٹارک کو لانا چاہیے تھا جو ٹیل اینڈرز کو تباہ کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ کمنز نے اسٹارک سے صرف ایک اوور کرایا اورلیگ سپنر سوئپسن کو لے آیا۔ نوجوان لیگ سپنر کے لئے یہ میچ بہت بھاری ثابت ہوا۔ غریب نے آخری اننگ میں چون اوورز کرائے اور ایک وکٹ بھی نہ ملی۔

کمنز پر کرکٹ شائقین کی جانب سے ایک تنقید یہ بھی ہو رہی ہے کہ اگر وہ دلیرانہ اور جارحانہ فیصلہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو فالوآن کے بعد دوبارہ بیٹنگ کے لئے بلا لیتا تو شائد میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ خیر یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ آسٹریلیا نے یہ کب سوچا ہوگا کہ پاکستان اس طرح کا باؤنس بیک کر لے گا۔
کراچی ٹیسٹ سے یوں لگا کہ بابر اعظم پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کو ٹرانسفارم کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے۔ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو ان شااللہ پاکستانی ٹیم نئے فائٹنگ جذبہ اور سپرٹ کے ساتھ دنیائے ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیموں میں آ جائے گی۔

آخری میچ لاہور میں ہونا ہے۔ پاکستانی ٹیم کا مورال بلندہے۔ اگر پاکستان ٹاس جیت گیا تو پہلی اننگ میں لمبا سکور کر کے یہ دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ لاہور ٹیسٹ نتیجہ خیز ہونا چاہیے کہ یہ تاریخی سیریز ہے، پاکستان اگر جیت جائے تو قومی کرکٹ اور ٹیم پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔

Related Posts