گندم کا سر اٹھاتا بحران

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ سمیت پورے پاکستان میں لوگ اس وقت گندم اور آٹے کی قلت کا شکار ہیں، افسوسناک بات تویہ ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھیں تو موجودہ مالی سال کے دوران گندم کی 1اعشاریہ 9 ملین میٹرک ٹن کی قلت ہوسکتی ہے، اس کی روک تھام کے لئے گندم ذخیرہ کرنے اور مصنوعی مہنگائی کے طوفان پر قابو پانا ضروری ہے ،گندم کی 1اعشاریہ 9 ملین میٹرک ٹن کی تخمینی قلت میں سے آبادی کے لحاظ سے پاکستان   کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کواس مجموعی نقصان کا 95 فیصد بوجھ اٹھانا پڑے گا۔

ہر سال گندم کے بحران کو روکنے کے لئے حکومت ستمبر / اکتوبر میں کٹائی کے موسم کے دوران مذکورہ اجناس مل مالکان کو مقررہ قیمت پر جاری کرتی ہے تاکہ آٹے کی قیمتیں ملک میں مستحکم رہیں تاہم اب تک پاکستان میں گندم کی خریداری کا ہدف 8 ملین ٹن تھا جس میں سے 6اعشاریہ 5 حاصل کیا گیا ہے اورتقریباً 1اعشاریہ 5 ملین ٹن کی قلت باقی رہ گئی ہے۔

اس کے علاوہ آٹا ملوں کے ذریعہ مزید صفر اعشاریہ 4 سے صفر اعشاریہ 5 ملین ٹن ذخیرہ ہوتا ہے جو ابھی تک نہیں خریدا جاسکا۔

گندم کی قیمت 36 روپے فی کلو ہونی چاہئے تھی لیکن مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے 45 روپے میں فروخت کی جا رہی تھی جبکہ آٹا جس کی قیمت 40 روپے فی کلو ہونا چاہئے تھی وہ 49 سے 50 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے ،بڑھتی ہوئی قیمتوں کا غریب گھرانوں پر تباہ کن اثر پڑتا ہے۔

ملک میں جب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے افراط زر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود آج کل جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے توہم نے گندم یا آٹے پر اس کا مثبت اثر نہیں دیکھا ۔ یہ ذخیرہ اندوز مافیا کی طاقت اور اثر و رسوخ کا واضح ثبوت ہے۔

لاہور میں ان دنوں گندم کی قیمت 1775روپےفی من اور گھوٹکی سندھ میں اسی مقدار میں گندم کی قیمت 1500 روپے ہے اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی ملک کے دو شہروں میں فی من 225 روپے کا فرق ہے۔

 ستم ظریفی یہ ہے کہ کسانوں / مڈل مینوں نے بھی بڑی مقدار میں گندم جمع کررکھی ہے۔ حکومت کی جانب سے مذکورہ اجناس کی براہ راست خریداری پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے وہ اس قابل ہوسکے ہیں کیونکہ کوئی نجی کمپنی کسان سے براہ راست گندم نہیں خرید سکتی ۔

گندم کے بحران پر قابو پانے کے لئے حکومت کو فلورملوں کو رواں سال 15 جون یایکم جولائی سے گندم کی سپلائی شروع کرنی ہوگی۔ صرف صفراعشاریہ 5 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت ہے تاہم اس کوٹہ کو بڑھا کر 20 لاکھ ٹن کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں گندم کی برآمدات پرٹیکس ختم کیا جائے تاکہ گندم کی قیمت میں اضافہ نہ ہو۔

گندم کی درآمد سے ذخیرہ شدہ فصل کو خود بخود کھلی منڈی میں دھکیل دیا جائے گا اور اس طرح فراہمی اور طلب کے بنیادی اصولوں کے مطابق قیمتوں میں کمی آجائے گی۔

مزید برآں ستمبر کے وسط کے بعد برآمد ہونے والی گندم ایک بار مارکیٹ میں ڈال دینے سے آٹے اور گندم کے بحران پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

لگتا ہے کہ محکمہ خوراک پنجاب ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ 31 مئی کو خانیوال میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں 1500 بوری گندم ضبط کی گئی تھی۔ اسی طرح کی  کاروائیاں پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی کی گئیں۔

صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کو فوری طور پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھوک ہے جس کے لئے وہ جرم کرنے پر بھی راضی ہوجاتاہے۔

گندم فروشوں اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے لوگوں کے خلاف شفاف تحقیقات کی جائیں اور ان جرائم کے پیچھے موجود عناصر کو حراست میں لیکرسزاء دی جائے تاکہ اس مذموم عمل کا سدباب ہوسکے۔

Related Posts