فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ آپ کو کیوں دیکھنی چاہیئے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ آ پ کو کیوں دیکھنی چاہیئے؟
فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ آ پ کو کیوں دیکھنی چاہیئے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

زیادہ تر ناظرین ایسی فلموں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جس کی کاسٹ اچھی ہوتی ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر کو دیکھتے ہوئے فلم کو دیکھنے کا ارادہ کیا جائے۔

اسی طرح کا معاملہ ہدایت کار بلال قریشی کے ساتھ بھی ہے جنہوں نے ماضی میں کامیاب فلم ’وار‘ بنائی تھی اور اب وہ ایک بار پھر سال کی بہترین فلم دی لیجنڈ آف مولاجٹ کے ساتھ واپس آئے ہیں جو جلد ہی سینیما گھروں میں ریلیز ہونے والی ہے۔

میں اپنے آپ خوش قسمت کہونگی کیونکہ میں نے فلم کی آفیشل ریلیز سے کچھ روز قبل اسے دیکھا ہے، فلم کے آغاز کے کچھ ہی دیر بعد مجھے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ایک بہت ہی زبردست فلم ہے جو کہ ناظرین کی دلچسپی کو آخر تک برقرار رکھے گی۔

فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ انتقام، محبت اور طاقت کی کہانی ہے، جو کہ کم عمری میں یتیم ہونے والے سردار جٹ کے بیٹے مولاجٹ (فواد خان) کے گرد گھومے گی۔

قالدین کے انتقال کے بعد اُسے ایک ایسی عورت گود لے لیتی ہے جس کا پہلے سے ہی ایک بیٹا مودا (فارس شفیع) ہے لیکن وہ اپنے بیٹے سے زیادہ مولاجٹ سے پیار کرتی ہے، بدقسمتی سے ماں اور مودا کی محبت مولا کیلئے کافی نہیں ہوتی اور وہ بعد میں ایک لڑاکا بن جاتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے مولا کو ہر کوئی پسند کرتا ہے خاص طور پر مکھوجٹنی جس میں مولا کو بھی دلچسپی ہے۔ جلد ہی جٹ کا سامنا نت بہن بھائیوں (نوری، دارو اور ماخا) سے ہوتا ہے جو کہ اُس آدمی کے بچے ہیں جس نے جٹ کے والدین کا قتل کیا تھا۔ اس کے بعد فلم میں بدلہ لینے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

میری نظر میں اس پنجابی فلم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں انگریزی کے سب ٹائٹلز بھی دیے گئے ہیں جو کہ کسی بھی ایسے شخص کو فلم سے جوڑے رکھیں گے جس کو پنجابی سمجھنے میں تھوڑی مشکل ہوتی ہے، میں فلم کے ہدیات کار بلال لاشاری کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ ایک ہی فلم میں دو کامیاب اداکاروں کو دکھانا اور دونوں کی ہی بھرپور اداکاری دکھانا قابلِ تعریف ہے، جیسے اس میں حمزہ علی عباسی اور فوادخان کو دکھایا گیا ہے۔

ڈھائی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جس چیز نے میری دلچسپی کو قائم رکھا وہ حمزہ علی عباسی کی بہترین اداکاری تھی، اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے نوری نت کے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے تو غلط نہیں ہوگا، فلم کی نمائش کے دوران میں نے ایک بہت ہی دلچسپ منظردیکھا جب حمزہ علی عباسی کے مناظر کے دوران سامعین نے اُن کی اداکاری سے متاثر ہوکر خوشی سے تالیاں بجائیں۔

میرے خیال میں نوری کا کردار تھوڑا مبہم ہے کیونکہ اُسے فلم میں ولن تو دکھایا گیا ہے لیکن اگر یہ کہوں کہ وہ ایک نیک دل ولن ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ فلم میں دکھایا گیا ہے وہ اُن لوگوں کیلئے ظالم ہے جو اُس کے مستحق ہیں جبکہ اپنے قریبی لوگوں میں اُسے ایک الگ ہی نت کو طور پر دکھایا گیا ہے، اسے اپنے دیگر بہن بھائیوں کے برعکس سردار بننے میں کوئی دلچسپی نہیں جبکہ اُس کے دونوں بہن بھائی جودارو(حمائمہ ملک) اور ماکھی (گوہررشید) کو صرف اقتدار سے غرض ہے۔

اگر فلم کی موسیقی کی بات کی جائے تو اس میں صرف ایک ہی گانا ہے جس میں فلم ’وار‘ کے اُس منظر جیسی عکاسی کی گئی ہے جب دہشت گرد آرمی کیمپ پر حملہ کرتے ہیں۔ گانے میں مکھو جٹنی اور مولا کو دکھایا گیا ہے۔

مجموعی طور پر فلم کی ڈائریکشن بہت اچھی تھی، کیمرے کے زاویے اتنے اچھے تھے کہ اُن کی جتنی تعریف کی جائے اُتنی کم ہے اور مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ 1970 کی دہائی کا زمانہ دکھانے کے بعد بھی اس میں نئی ٹیکنالوجی آزمائی گئی۔

یہاں پر میں اس فلم کی جتنی تعریف کروں اتنی کم ہے کیونکہ اس نے سامعین کی دلچسپی کو آخر تک برقرار رکھا ۔

میں نے اس فلم کو دیکھ کر بہت زیادہ فخر محسوس کیا کیونکہ اس میں کوئی آئٹم نمبر نہیں تھا، کہانی بہت اچھی تھی اور ایک شاندار کاسٹ تھی۔ ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا اختتام مولا کے مشہور ڈائیلاگ ’مولا نوں مولا نہ مارے، تے مولا نہیں مار سکدا‘ کے ساتھ ہوا، اس فلم کو دیکھنے کا میرا تجربہ بہت ہی اچھا رہا۔

Related Posts