ٹیسٹ کرکٹ: پاکستانی ٹیم کیوں مسلسل ہار رہی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹیسٹ کرکٹ: پاکستانی ٹیم کیوں مسلسل ہار رہی ہے؟
ٹیسٹ کرکٹ: پاکستانی ٹیم کیوں مسلسل ہار رہی ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم آج کل بہت برے دور سے گزر رہی ہے۔ اسی سال آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے ڈیڈ پچیں بنائیں، اس کے باوجود ہم سیریز ہار گئے۔ سری لنکا میں ایک ٹیسٹ جیت گئے مگر پھر دوسرا ہار کر سیریز برابر کرا بیٹھے، حالانکہ ایک کمزور سری لنکن ٹیم سے ہمارا واسطہ پڑا تھا۔

آج کل انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہو رہی ہے، پاکستانی ٹیم کی حالت پتلی ہے۔ پہلا ٹیسٹ ہم ہار گئے، اس میں پاکستانی باﺅلرز کی بہت پٹائی ہوئی، انگلینڈ نے ایک دن میں پانچ سو رنز بنا کر نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔

دوسرے ٹیسٹ میں بھی حالات خراب لگ رہے ہیں اور پاکستان ایک اور شکست کی طرف گامزن ہے، اگر کوئی معجزہ نہ ہوا تو یہ ٹیسٹ اور یوں پوری سیریز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ خدشہ یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان اپنے ہوم گراﺅنڈ میں کہیں تینوں ٹیسٹ ہار کر کلین سوئپ نہ کرا بیٹھے ۔

ہر سیریز کے ہارنے کے بعد کپتان اور کوچ پکا سا منہ کر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سیریز سے تجربہ حاصل کیا، آگے کامیاب آئے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک اور سیریز ہارنے کا ”تجربہ “بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اس بری کارکردگی کی چند وجوہات ہیں۔ ان پر بات کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر بنیادی مسائل حل نہیں کئے جائیں گے تو ہم اسی تسلسل سے ہارتے جائیں گے۔

ٹیسٹ کرکٹ کو نظرانداز کرنا

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور مینجمنٹ نے ٹیسٹ کرکٹ کو اپنی ترجیح ہی نہیں بنایا۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو پی ایس ایل جیسا منافع بخش اور گلیمرائزڈ ٹورنامنٹ کا ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ہونا ، دوسرا پچھلے چند برسوں میں پہلے ون ڈے کرکٹ اور اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی زیادتی ۔ پاکستان کو مشکل سے سال میں دو سے تین ٹیسٹ سیریز ملتی ہیں، وہ بھی زیادہ تر دو یاتین ٹیسٹ میچز۔ پانچ ٹیسٹ کی سیریز کھیلے ہوئے طویل عرصہ گزر گیا۔ کرکٹ بورڈ کی بھی زیادہ تر توجہ وائٹ بال کرکٹ پر رہتی ہے۔کلاسیک کرکٹ جسے دنیا بھر میں جانا مانا فارمیٹ سمجھا جاتا ہے، اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجہ سامنے ہی ہے۔

سپیشلائزڈ ٹیسٹ پلیئر تیار نہ کرنا

وائیٹ بال (ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی )کرکٹ کے برعکس ٹیسٹ میچ (ریڈ بال)کرکٹ کے اپنے تقاضے ہیں اور یہاں پر سپیشلسٹ کھلاڑیوں کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں ایک باﺅلر کو صرف چار اوور ز کرانے ہوتے ہیں، کئی بار پارٹ ٹائم سپنر بھی یہ کام اچھے سے کر دیتے ہیں۔ ون ڈے میں ایک باﺅلر زیادہ سے زیادہ دس اوور کرا سکتا ہے۔ وہاں پر بھی پارٹ ٹائم باﺅلرز کچھ نہ کچھ کام چلا دیتے ہیں۔ چار اوور، چھ اوور کرا دئیے اور یوں گزار ہوگیا۔

ٹیسٹ کرکٹ پانچ روزہ کھیل ہے، یہاں ایک دن میں نوے اوورز کے قریب کھیل ہونا ہے، اگر ٹیم میں چار باﺅلرز ہوں تو پندرہ سے بیس اوورز فاسٹ باﺅلر جبکہ سپنر پچیس تیس اوور کرائے گا۔ بہت بار ایک ٹیم کی اننگ دو دن تک چلتی ہے۔،یوں سپن باﺅلرز کو چالیس پچاس اوور تک کرانے پڑ جاتے ہیں۔ یہی حال بیٹنگ کا ہے، اگر بیٹر(بلے باز)وکٹ پر دو ٹین گھنٹے ٹھیرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ناکام ہوجائے گاجبکہ وائٹ بال کرکٹ میں پندرہ بیس گیندوں پر تیس پینتیس رنز بنانے والا کامیاب ٹھیرتا ہے۔

پاکستان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اکثر باﺅلرز وائٹ بال کرکٹ کھیلتے اور وہاں کامیاب ہیں۔ ریڈ بال فارمیٹ کی طرف لڑکے کم آتے ہیں اور جو آئے وہ پورا سال اپنی فارم برقرار نہیں رکھ پاتے۔ جیسے حارث روف تین چار سال سے وائٹ بال کرکٹ کا کامیاب باﺅلر ہے جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں اس نے پہلا ٹیسٹ پچھلے ہفتے کھیلا۔

نسیم شاہ بھی ٹیسٹ کرکٹ کم کھیلا، وسیم جونئیر نے ابھی تک ایک بھی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔ شاداب خان وائٹ بال کا بہت کامیاب کھلاڑی ہے، مگر ٹیسٹ میں اسے ایک آدھ موقعہ ہی ملا۔ شاہین شاہ وائٹ بال اور ریڈ بال دونوں میں کامیاب رہا، مگر شائد اسی ورک لوڈ کی وجہ سے وہ ان فٹ بھی ہوگیا۔

پاکستانی کرکٹ بورڈ نے ریڈ بال کرکٹ کے لئے الگ سے کھلاڑی تیار ہی نہیں کئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چند باﺅلرز اگر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں پرفارم کر رہے ہیں تو ٹیسٹ میچز کے فارمیٹ سے مطابقت رکھنے والے کھلاڑی تیار کرنے چاہیے تھے ۔

ٹیسٹ کرکٹ میں پیسہ کی کمی

وائٹ بال کرکٹ خاص کر ٹی ٹوئنٹی کی طرف جانے کی سب سے بڑی وجہ پیسہ ہے۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک ٹی ٹوئنٹی لیگ کراتے ہیں، ان میںپاکستانی کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں۔ دو تین ہفتوں سے ایک ماہ تک کے کھیل کے انہیں اچھی آمدنی مل جاتی ہے، ایک سے دو کروڑ روپے کے لگ بھگ۔ پی ایس ایل جو ہماری مقامی لیگ ہے،ایک ماہ تک یہ جاری رہتی ہے، اس میں کھیلنے والے اہم پاکستانی کھلاڑیوں کو ایک لاکھ ڈالر یعنی دو سوا دو کروڑ کے قریب ملتے ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ فارمیٹ میں کہیں کوئی لیگ نہیں اور صرف قومی ٹیسٹ ٹیم میں رہ کر آمدنی مل سکتی ہے۔ یہ بھی اچھی بھلی ہوتی ہے، مگر ٹی ٹوئنٹی لیگز کھیلنے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ دھواں دھار کھیل کر پی ایس ایل میں جگہ بنائیں اور وہاں پرفارم کر کے غیر ملکی لیگز کھیلنے جائیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں پاور ہٹر یا ٹُلے مارنے والے بلے بازوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں البتہ تکنیکی طور پر بہتر بیٹرز چاہییں۔ نئے لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بس چھکے لگانے سیکھ لیں تاکہ دنیا بھر سے ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کی آفرز ملیں۔ اسے اپنی تکنیک بہتر کرنے کی خواہش ہی نہیں رہتی ۔

ہائی پرفارمنس سنٹر کی مایوس کن کارکردگی

پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہائی پرفارمنس سنٹر بنایا تھا، اعلان کیا کہ نوجوان کھلاڑیوں کو تیار کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے محمد یوسف کو بیٹنگ کوچ اور ثقلین مشتاق کو پرفارمنس سنٹر کا سی ای او بنایا گیا۔ ایک باﺅلنگ کوچ بھی رکھا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یوسف اورثقلین قومی ٹیم کی کوچنگ کر رہے ہیں، پرفارمنس سنٹر میں ڈھنگ کے کوچ ہی نہیں۔حال تو یہ ہے کہ ہر سال پی ایس میں دو چار نوجوان کھلاڑی ابھر کر آتے ہیں۔ پرفارمنس سنٹر میں انہیں بھی بلا کر گروم نہیں کیا جاتا۔

وہ غریب اپنے طور پر دھکے کھاتے ، ڈومیسٹک میں لگے رہتے ہیں۔ بن گئے تو بن گئے ، ورنہ ختم ۔ پاکستان کے پاس اچھے سپنرز کی کمی رہی ہے، آج اگر شاداب خان ان فٹ ہوجائے تو وائٹ بال میں اچھا لیگ سپن آل راﺅنڈ ر نہیں ہے۔ اسی طرح یاسر شاہ کی فارم ختم ہوئی تو ٹیم میں لیگ سپنر نہیں ، یہ اب اچانک سے ابرار کی صورت میں ایک مسٹری سپنر آگیا، ورنہ بورڈ نے اس کے لئے کوئی تیار ی نہیں کی۔

جارحانہ اور پروفیشنل انداز کا فقدان

آج کل پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی مسلسل شکست اور بری کارکردگی کی بڑی وجہ جارحانہ اور پروفیشنل انداز کی کمی ہے۔ پاکستانی ٹیم کو ایک جارحانہ انداز رکھنے والا کپتان چاہیے۔ اس سے بھی زیادہ انہیں جارحانہ اپروچ رکھنے والا پروفیشنل کوچ درکار ہے۔ جو بے رحمانہ انداز میں ہر قسم کی وضع داری اور اخلاق کو ایک طرف رکھ کر سو فی صد میرٹ پر ٹیم بنائے، انہیں تیار کرے اور وہ جارحیت پیدا کرے جو جدید کرکٹ کا لازمی جز ہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم کے دونوں موجودہ کوچ محمد یوسف اور ثقلین مشتاق ضرورت سے زیادہ نرم ، وضع دار اور اخلاقیات کا پیکر ہیں۔ وہ سو فی صد میرٹ پر ٹیم کھلانے کے بجائے وضع داری نبھانے کے چکر میں پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر پنڈی ٹیسٹ میں مسٹری سپنر ابرار احمد بہترین چوائس تھی، ابرار نے ڈومیسٹک میں غیر معمولی پرفارم کیا، پنڈی سٹیڈیم میں اس کاریکارڈ بہت اچھا ہے، وہ مسٹری سپنر ہونے کے ناتے انگلش ٹیم کے لئے مشکل پیدا کر سکتا تھا۔

کوچ اور مینجمنٹ نے ابرارکے بجائے زاہد محمود کو کھلایا ، یہ سوچ کر کہ زاہد ایک سال سے ٹیم کے ساتھ ہے تو پہلے اس کا نمبر آنا چاہیے ۔ او بھائی تم اسے ہوٹل میں کھانا نہیں کھلانے لے جا رہے، انگلینڈ جیسی خطرناک ٹیم کے خلاف ٹیسٹ کھلا رہے ہو۔ یہ دیکھو کہ زاہد محمود اور ابرار احمد میں سے بہتر باﺅلر کون سا ہے ؟ بس اتنا ہی چاہیے ۔ اگر ابرار اپنے سے سینئر زاہد سے بہتر ہے تو پھر اسے پہلے موقعہ دو۔

یہی ملتان ٹیسٹ میں کیا گیا۔ شان مسعود جیسا ان فارم بلے باز باہر بیٹھا ہے، مگر ٹیم نے سلما ن علی آغا کو کھلایا کہ یہ ٹیم کے ساتھ پہلے سے ہے اور پچھلے میچ میں ففٹی بھی اس نے بنائی۔ دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ سلمان بہتر بلے باز ہے یا شان مسعود؟ جو بہتر ہے اسے کھلا دو۔ شان بہتر ہے، تجربہ بھی ہے، ڈبل سنچریاں بھی بنا چکا ہے ، اسے چانس دو۔ ایسا نہیں کیا گیا اور نقصان بھی سامنے آ گیا ہے۔

آدھے ادھورے کھلاڑیوں پر انحصار

پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ سپیشلسٹ کھلاڑیوں کو کھلانے کے بجائے آل راﺅنڈر کے نام پر آدھے ادھورے کھلاڑی کھلانا ہے۔ عمران خان جنہیں ریلو کٹا کہا کرتے تھے۔ جیسے ملتان ٹیسٹ میں محمد نواز کو آل راﺅنڈر کے طور پر کھلا دیا گیا۔ بیٹنگ ان سے ہوئی نہیں اور ٹیسٹ کے سٹینڈرڈ کی باﺅلنگ وہ کرا نہیں سکتے۔ یہی معاملہ فہیم اشرف کے ساتھ ہے۔ وہ آل راﺅنڈر ہے مگر بطور باﺅلر وکٹ لینا اب اس کے بس کی بات نہیں۔بیٹنگ میں بھی بیس پچیس رنز بنانے سے کیا سپورٹ ملے گی؟

زاہد محمود بھی ٹیسٹ فارمیٹ کے لیول کا لیگ سپنر نہیں۔ اس کا نقصان یہی ہوا کہ انگلش ٹیم نے پاکستان کو آگے لگا لیا۔ ملتان میں اگر ابرار غیر معمولی کارکردگی نہ دکھاتا تو پنڈی والا میچ کا ری پلے ہوجانا تھا۔ زاہد محمود، محمد علی، نواز ، فہیم اشرف میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ انگلش بلے بازوں کو تیزی سے رنز بنانے سے روک سکتے۔

نچوڑ اس پوری بحث کا یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ایک اچھا جارحانہ سوچ رکھنا والا غیر ملکی کوچ چاہیے ۔ جو شرم ، لحاظ ایک طر ف رکھ کر جرات مندانہ فیصلے کرے اورجس حد تک سپیشلسٹ کھلاڑی دستیاب ہیں وہ کھلائے۔ موجودہ کوچز کو ہائی پرفارمنس سنٹر بھیج کر انہیں نیا ٹیلنٹ تیار کرنے کا ٹاسک دیا جائے۔ انڈر نائنٹین اور اے ٹیم پر توجہ دی جائے، ڈیڈھ دو برسوں میں نئے ٹیلنٹڈ کھلاڑی تیار ہوجائیں گے۔تب تک جیسے تیسے ہوسکے موجودہ مال سے کام چلایا جائے۔

Related Posts