تحریک انصاف بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ، چند اہم سوالات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت ہوسکتی ہے؟مزے کی بات ہے کہ پی ڈی ایم اور خاص کر مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے لئے یہ سوال اور زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

ن لیگی رہنماﺅں اور کارکن تو اس حوالے سے کسی غلط یا فیک سوشل میڈیا سٹوری پر بھی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عمران خان کی ہائی کورٹ سے سزا معطل ہوتی ہے، اصل کیس ویسے کا ویسے ہے اور یہ بات بھی ہر ایک کو پتہ چل چکی ہے کہ عمران خان کی ایک اور کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی ہے اور اسے کسی بھی صورت میں باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔ اس کے باوجود ن لیگی قیادت شہباز شریف وغیرہ مشتعل ہو کر عدالتوں پر برس پڑتے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز تو اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔ یہ ان کاایک خاص بیانیہ بنانے کی کوشش بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ شدید عدم تحفظ کی سوچ کی بھی خبر دیتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے ستمبر کے وسط میں آنا تھا، اسے ایک مہینہ لیٹ کر دیا ، بعض دیگر وجوہات کے ساتھ مبینہ طور پر نواز شریف صاحب یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ تب تک عمران خان خان کو سپیشل سیکرٹ ایکٹ والے کیس میں قید کی سزا ہوتی ہے یا نہیں؟

تحریک انصاف کے کارکنوں کو نظر آرہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس موڈ میں ہے، اس کے پیش نظر الیکشن میں پارٹی کو حصہ نہیں لینے دیا جائے گا یا اس قدر ہاتھ پاﺅں باندھ کر موقعہ ملے گاکہ کامیابی نہ ہوسکے ۔ اگرچہ یہ آسان ٹاسک نہیں ہے اور تحریک انصاف کو اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی جس قدر عوامی مقبولیت حاصل ہے، اس کے پیش نظر الیکشن جلد کرانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اصل سوال کی طرف پھر لوٹتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان صلح یا مفاہمت کرائے جانے کا کوئی امکان موجود ہے؟

باخبر دوست اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں فی الوقت عمران خان کے نام پر کراس لگایا جا چکا ہے، آئندہ الیکشن کے بعد جو سیاسی سیٹ اپ بنے گا، اس میں تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے کوئی جگہ نہیں، سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے اورپی ڈی ایم کی پہلے کی طرح جیسی کوئی مخلوط حکومت بنے گی، جس میں زیادہ حصہ ن لیگ کا ہوگا۔

ایک مسئلہ میرے جیسے لکھنے والے کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جب ہم معلومات حاصل کر کے ،زمینی حالات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کوئی تجزیہ لکھتے ہیں تو تحریک انصاف کے بعض کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ آپ بددلی پھیلا رہے ہیں اور درحقیقت یہ پی ڈی ایم کا ایجنڈا ہے جسے پورا کرنے کی کوشش ہورہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ تب ہم جیسے کیا کر سکتے ہیں؟ ویسے اگر تحریک انصاف کا کوئی کارکن یا حمایتی اس وقت بھی بددل نہیں ہے اور اچھی امیدیں رکھتا ہے تو اسے اگلے سال صدارتی ایوارڈ برائے خوش گمانی کے لئے نامزد کرنا چاہیے ۔

اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت یا ناراضی کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں، وہ سب کے سامنے ہی ہیں۔ عمران خان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا اینٹی فوج بیانیہ،ان کے ہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے زیرو سپیس،سولو فلائیٹ کا شوق،انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا، دوست ممالک میں بھی کوئی سپورٹ نہ ہونا وغیرہ وغیرہ جبکہ نو مئی کے واقعات پر مقتدر حلقوں کی برہمی تو خیر جانی پہچانی ہے۔

میری ذاتی رائے میں اب کہیں ایک خیال یہ بھی ہوگا کہ اگر عمران خان برسراقتدار آگیا تو وہ بہت جارحانہ موقف اپنائے گا، اپوزیشن کو رگڑ دے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی جتنی مرضی یقین دہانی اب کرا دے ، تب اس کا رویہ ناقابل یقین ہوسکتا ہے، وہ کچھ بھی کرسکتا ہے وغیرہ۔

ایک حلقہ ایسا ہے جن کی رائے ہے کہ عمران خان کے بغیر معاملات نہیں چلائے جا سکتے اور اسے باہر رکھ کر مستحکم سیاسی منظرنامہ بنانا بہت مشکل ہے، اس لئے کسی نہ کسی مرحلے پر عمران خان سے بات کرنا پڑے گی۔ یہ رائے تحریک انصاف کے اندر بھی ہے اور باہر میڈیا میں اس کے حامی حلقے میں بھی یہ سوچ رکھنے والے موجود ہیں۔ اسے دل خوش کن امید بھی کہہ سکتے ہیں اور ان کی ایک پیش گوئی بھی۔

تحریک انصاف کے اندر ایک طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی بات ہونی چاہیے اور سیاست میں جس قدر سپیس مل سکے، وہ لینی چاہیے ۔

ان کے خیال میں اگر چیئرمین عمران خان کچھ عرصے کے لئے پیچھے ہٹ جائیں تو پھر شائد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی بات بن سکے ۔ اقتدار کے لئے سپورٹ ملنے کی امید تو خیر یہ بھی نہیں رکھتے، مگر ان کا خیال ہے کہ اگر الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی مخالفت نہ کی جائے تو اسمبلیوں میں اچھا خاصا مضبوط اور بڑا گروپ وہ بنا لیں گے۔ مسئلہ یہی ہے کہ عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے حامی ہیں اور کسی بھی صورت پارٹی کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔

سوال پھر یہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا ہوسکتا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ کس طرح تحریک انصاف کی بڑی پاپولر عوامی سپورٹ کو غیر موثر بنائے گی اوراسے اگلے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے سے روکے گی؟
کہا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے ایک فارمولا بنایا گیا ۔ یہ بات اپنے وی لاگز میں کہی ہے، کوئی ایسی بات نہیں جو نئی ہو، مگر اس کی بہرحال ایک اہمیت ہے۔ ہماری سیاست میں دو ہزار دو 2002)) بہت اہم سال رہا ہے، یہ الیکشن جنرل مشرف نے کرائے تھے اور اس میں کوشش کی گئی کہ ن لیگ کو امیدوار ہی نہ ملیں۔ تب ن لیگ کا خاصا بڑا ووٹ بینک تھا، مگر امیدوار نہ ملنے کی وجہ سے الیکشن درست طریقے سے نہ لڑا جا سکا اور بمشکل درجن بھر سیٹیں ملیں۔ اس سے پچھلے انتخابات یعنی انیس سو ستانوے میں پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پارٹی کا کارکن اس قدر مایوس اور فرسٹریٹ ہوچکا تھا کہ وہ باہر ہی نہ نکلا اور پارٹی کا صفایا ہوگیا، سولہ سترہ سیٹیں مل پائیں۔ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے بہت سے امیدوار توڑے گئے، چند ایک نے ٹکٹ لے کر واپس کر دی مگر اتنی تاخیر سے کہ نئی ٹکٹ جاری ہی نہ ہوسکے، کچھ نے آزاد الیکشن لڑا اور بعد میں جیتنے کے بعد وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے تگڑے امیدواروں پر دباﺅ ڈال کر انہیں تحریک انصاف کی طرف کیا گیا اور یوں ن لیگ پنجاب اور وفاق دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ باخبر صحافی یہ خبر دے رہے ہیںکہ یہ تینوں ماڈل اکھٹے اگلے الیکشن میں استعمال ہوں گے۔ کوشش ہوگی کہ تحریک انصاف کا ووٹر اور کارکن اس قدر مایوس ہوجائے کہ وہ ووٹ ڈالنے نکلے ہی نہ، جبکہ ان کے اچھے امیدوار پارٹی چھوڑ جائیں،جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اورپرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹرین میں شامل ہوجائیں یا پھر آزاد الیکشن لڑیں۔، تاثر دیں کہ عمران خان کے حامی ہیںیوں ان کا ووٹ بینک بھی استعمال کریں مگر جیتنے کے بعد پی ڈی ایم کا حصہ بن جائیں۔

دو ہزار دو میں شیخ رشید نے بھی ایسا کیا تھا۔ پنڈی کی دو سیٹوں سے شیخ صاحب نے آزاد الیکشن لڑا، نواز شریف کا نام استعمال کر کے ن لیگی ووٹ لیا ، جلسوں میں کہتے رہے کہ جیت کر یہ دونوں سیٹوں نواز شریف کے قدموں میں رکھ دوں گا۔ جیتنے کے بعد مشرف کی ق لیگ کا حصہ بن گئے اور وزارت لے لی۔ ایک سیٹ انہیں چھوڑنا پڑی تھی، ضمنی الیکشن میں ووٹر نے شدید ردعمل دیا اور ان کا بھتیجا الیکشن ہار گیا۔ شیخ صاحب پر مگر کوئی اثرنہ پڑا ، وہ مزے سے مشرف دور کے پانچ سال وزارتوں میں رہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے پلان اپنی جگہ مگر عمران خان اور تحریک انصاف بھی جوابی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر یہ اہم وکلا رہنماﺅں کو ٹکٹیں دیں گے تاکہ ان کے خلاف کسی کارروائی پرمتعلقہ بارکونسلیں احتجاج کریں اور ساتھی وکلا مل کر انہیں انتظامی دباﺅ سے بھی بچائیں۔ عمران خان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ بہت سی جگہوں پر وہ نظریاتی کارکنوں کوٹکٹ دیں گے جن کی وفاداری شک وشبے سے بالاتر ہو اور انہیں امید ہے کہ ووٹر صرف پارٹی نشان پر ہی ووٹ ڈال دے گا۔
بعض جگہوں پر انصافین امیدوار آزاد بھی لڑیں گے تاکہ دباﺅ نہ پڑ سکے ۔ کوشش ہوگی کہ ایسے امیدوار ہوں جو جیتنے کے بعد تبدیل نہ ہوں اور وفاداری نبھائیں۔ اس سب کے ساتھ عمران خان کو یہ بھی امید ہے کہ ان کی بڑی عوامی سپورٹ کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ الیکشن کے قریب ان سے بات کرنے کا سوچے گی۔ اسے اب دل خوش کن امید سمجھیں یا خان صاحب کی حالات کے بارے میں کیلکولیشن اور ایسسمنٹ۔یہ کس حد تک پوری ہوگی، اس کا اندازہ بھی ہم سب کو ہوجائے گا؟

اس پورے منظرنامے میں بجلی کے بلوں پر شدید ترین عوامی احتجاج ایک نیا فیکٹر بن کر سامنے آیا ۔ ایسا جس کی کسی نے پیش گوئی نہیں کی تھی ۔ پی ڈی ایم کی بھی ایسی کیلکولیشن نہیں تھی۔ عوام کی شدید نفرت اور بے زاری نے لندن بیٹھے نواز شریف کو بھی چوکنا کر دیا ہے، وہ بھی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ اپنی واپسی کو کچھ مزید لیٹ بھی کر سکتے ہیں۔ نگران حکومت پر یہی دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کر کے بجلی کے بلوں میں کچھ ریلیف تو دے ، ایسا جس سے شدید عوامی بے چینی اور اضطراب میںکسی قدر کمی ہو۔ معمول کی سیاسی سرگرمیاں تو شروع ہوسکیں۔

آنے والے دنوں میں سب سے زیادہ کردار اسی عوامی غصے ، ناراضی اور بے چینی کا ہے۔ یہ سب پلان چوپٹ بھی بنا سکتی ہے اور اگر سپن ماسٹر یہ سب بدلنے میں کامیاب رہے تب منظرنامہ مختلف ہوگا۔

Related Posts