سپریم کورٹ کا فیصلہ: کون جیتا، کون ہارا، کیا نتائج نکلیں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملکی صورتحال پر از خود نوٹس کیس، سپریم کورٹ میں سماعت آج ہوگی
ملکی صورتحال پر از خود نوٹس کیس، سپریم کورٹ میں سماعت آج ہوگی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آج اپنے اکثریتی فیصلہ میں یہ قرار دیا ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کے منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹ شمار نہیں کئے جائیں گے۔ ان کا ووٹ ان کی جماعت کی امانت ہے۔البتہ سپریم کورٹ کے بنچ نے ان منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی کر سکتی ہے۔

صدارتی ریفرنس کیا تھا؟
سابق وزیراعظم عمران خان کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ کو یہ ریفرنس بھیجا تھا جس میں چار اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کیا ان منحرف اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے؟ یاد رہے کہ تب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔

دوسرا سوال تھا کہ اگر بعض اراکین اسمبلی اپنی سیاسی جماعت سے منحرف ہو کر پارٹی گائیڈ لائن کے خلاف ووٹ ڈالیں تو کیا اس ووٹ کو شمار کرنا چاہیے؟ دیگر سوالات میں یہ بھی تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا صادق اور امین رہے گا؟ اسی طرح یہ سوال بھی تھا کہ کیا منحرف اراکین کو تاحیات نااہل کیا جائے تاکہ ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ سپریم کورٹ سے یہ رائے بھی مانگی گئی کہ فلورکراسنگ کی حوصلہ شکنی کے لئے مزید اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔

فیصلہ کیا آیا؟
سپریم کورٹ کے بنچ نے منگل کو اپنے اکثریتی فیصلہ (تین دو کی اکثریت)سے ایک بڑے بنیادی اہم سوال پر فیصلہ سنایا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے سنایا ہے جبکہ بنچ کے دو ارکان جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل نے اقلیتی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ تو شمار ہوگا، مگر وہ سزا کے طور پر ڈی سیٹ کر دیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے باقی سوالات کو نمٹاتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کے پاس بھیجا ہے کہ وہی فلور کراسنگ کی حوصلہ شکنی کے لئے قانون سازی کرے اور اگر منحرف رکن کو تاحیات نااہل کرنا ہے تو اس کے لئے بھی آئینی ترمیم لائے۔

یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت منحرف ارکان اسمبلی ڈی سیٹ یعنی اپنی سیٹ ویسے بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ تحریک انصاف البتہ اس سزا کو مزید سخت اور خوفناک بنانا چاہتی تھی۔ان کے پاس اکثریت نہیں تھی کہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لے آتے، ان کے قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس بھیجنے کی تجویز دی جس پر عمل کیا گیا۔ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ آئے تاکہ ان کے منحرف ارکان اسمبلی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ آئیں۔

کون جیتا، کون ہارا؟
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے عمران خان اور تحریک انصاف کی بنیادی خواہش تو پوری نہیں ہوئی اور منحرف ارکان اسمبلی تاحیات نااہل نہیں ہوں گے۔ ویسے اگر یہ ہوجاتا تو فلورکراسنگ کا باب ہی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا۔

تحریک انصاف کو البتہ ایک بڑی جیت یہ ملی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ان کے منحرف اراکین اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ دے کر وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق منحرف انصافین اراکین اسمبلی کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے، یعنی حمزہ شہباز اپنی اکثریت کھو بیٹھے اور وہ وزیراعلیٰ نہیں رہے۔

پنجاب میں کیا ہوگا؟
تحریک انصاف کے پچیس کے قریب ارکان اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا، جن کے خلاف ریفرنس بھی الیکشن کمیشن کو بھیجا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان کا ووٹ تو ضائع ہوا اور یوں گناہ بے لذت ہی ان کے حصے میں آیا۔ اب یہ منحرف ارکان اسمبلی واپس تحریک انصاف میں بھی نہیں آ سکتے کیونکہ یہ ووٹ ڈال چکے ہیں، ان کے خلاف ریفرنس بھی بھیجا جا چکا ہے۔

توقع ہے کہ الیکشن کمیشن انہیں ڈی سیٹ کر دے گا۔جبکہ اسمبلی میں حمزہ شہباز کی اکثریت واضح طور پر ختم ہوگئی۔ وہ ازخود مستعفی ہوں گے یا ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا۔ عمر سرفراز چیمہ گورنر یہ کہہ سکتے ہیں یا اگر انہیں گورنر نہیں تسلیم کیا جا رہا تو قائم مقام گورنر چودھری پرویز الٰہی یہ کہہ سکتے ہیں۔ حمزہ شہباز اعتماد کا ووٹ نہیں لے پائیں گے اور یوں کم از کم پنجاب میں بحران شدید ہوجائے گا اور اسمبلی تحلیل ہونے اور نئے انتخابات کرانے کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں کیا ہوگا؟
قومی اسمبلی میں فوری فرق تو شائد نہ پڑے۔ وہاں تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی نے چونکہ ووٹ نہیں ڈالا تھا، اس لئے وہ ڈی سیٹ نہیں ہوئے، الیکشن کمیشن بھی اس حوالے سے ریفرنس مسترد کر چکا ہے۔ البتہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ منحرف ارکان اسمبلی شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں شہباز شریف کی تمام تر اکثریت ایک یا دو ووٹوں پر منحصر ہے۔ وزیراعظم کے الیکشن میں انہوں نے دو ووٹوں کی اکثریت حاصل کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فواد چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ن لیگ کے تین ارکان اسمبلی شہباز شریف کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو وزیراعظم کی اکثریت ختم ہوگئی۔ تحریک انصاف کے عارف علوی صدر مملکت ہیں اور وہ اپنے طرزعمل سے واضح کر چکے ہیں کہ وہ عمران خان کے کہنے پر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ صدرعلوی وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ اگر واقعی ن لیگ کے تین ارکان اسمبلی اپنی وفاداری تبدیل کر چکے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت بھی ختم ہوگئی۔

چودھری پرویز الٰہی بھی بعض ٹی وی پروگراموں میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ چودھری سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ ان کی مرضی سے حکمران اتحاد کا حصہ بنے ہیں اور جب انہیں واپس آنے کا کہا جا ئے گا وہ واپس آ جائیں گے۔ اگر یہ دعویٰ درست تھا اور ق لیگ کے یہ دونوں ارکان اسمبلی حکمران اتحاد سے الگ ہوتے ہیں تب بھی حکومت گر جائے گی۔ تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ چودھری شجاعت حسین ایسا کرنے دیں گے یا نہیں؟ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں چودھری شجاعت کے زرداری صاحب سے تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے۔

امکانی منظرنامہ کیا ہے؟
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اپنے اثرات اور امپیکٹ کے حوالے سے ستر فیصد سے زیادہ تحریک انصاف کے حق میں گیا ہے۔ اگر پنجاب میں حمزہ شریف کی حکومت ختم ہوگئی تو تحریک انصاف کے لئے یہ بڑی جیت ہوگی۔ پنجاب میں صوبائی انتخابات ہوئے تو پھر مرکز میں بھی الیکشن کرانے پڑیں گے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، وہاں بھی الیکشن کرانے کا اعلان ہوجائے گا یوں الیکشن کی فضا بن جائے گی۔

معاملات اب نئے الیکشن کی طرف جائیں گے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ چند دنوں کی مہلت مل جائے اور حکمران اتحاد عجلت میں انتخابی قوانین میں ترمیم کر ڈالے یا بجٹ پیش کرنے کا موقعہ مل جائے۔

یہ بھی یاد رکھا جائے کہ حکمران اتحاد میں ایک طاقتور لابی نئے الیکشن کی حامی ہے اور وہ قطعی طور پر بجٹ پیش کرنے یا مشکل فیصلے کرنے کا سیاسی بوجھ اٹھانے کے حق میں نہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اس لابی کے موقف کو تقویت ملے گی۔ یہ سطور لکھے جانے تک حکمران اتحاد میں مشاورت کا عمل جاری تھا۔ امکان ہے کہ جلد ان کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ ویسے جلد اب اس پر بحث شروع ہوجائے گی کہ نگران حکومت کون بنائے گا اور یہ کتنی مدت پر محیط ہو؟ اس سوال اور اس کے جواب پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اس پر مگر پھر سہی۔

Related Posts