اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ اور قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کی حقیقت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ اور قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کی حقیقت
اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ اور قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کی حقیقت

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رواں ہفتے وزارتِ خزانہ نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت اسٹیٹ بینک کو ایک خودمختار ادارہ بنانے کیلئے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء کا مجوزہ مسودہ جاری کیا۔

ملک کے معاشی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ مرکزی بینک کو خودمختار بنانے کا نہیں بلکہ قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کا قانون ہے۔ یہ دعویٰ کس حد تک سچا یا جھوٹا ہے، آئیے اس حوالے سے مختلف حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

ترمیمی ایکٹ 2021ء کے بنیادی نکات 

مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض جاری نہیں کرے گا، اس کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں اور معیشت میں استحکام پیدا کرنا اور معاشی پالیسیوں کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدتِ ملازمت اور ہٹائے جانے کے طریقۂ کار میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ 

قبل ازیں 90ء کی دہائی میں بھی آئینی ترامیم ہوئیں جن کے تحت اسٹیٹ یبنک کو خودمختار ادارہ قرار دیا گیا تاہم موجودہ ترامیم اسٹیٹ بینک کو بے حد خودمختار ادارہ بنادیں گی۔ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی کسی بھی پالیسی کیلئے جوابدہ قرار نہیں دیا جاسکے گا۔

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو جو نیا کردار دیا گیا ہے اس کے تحت سب سے پہلے قیمتوں میں استحکام اور مہنگائی کنٹرول کرنا اہم ہے اور پھر حکومت کو معاشی ترقی کی کاوشوں میں مدد دینا، ملکی معاشی ترقی سب سے نیچے ہے جو خطرناک رجحان کہا جاسکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا نیا کردار 

دراصل ترمیمی ایکٹ 2021ء میں اسٹیٹ بینک کے کردار کا ازسرِ نو تعین عمل میں لایا گیا جس میں مہنگائی اور مالیاتی نظام کے استحکام کو ترجیح دی گئی اور معاشی ترقی کیلئے مدد فراہم کرنا سب سے آخری یا معمولی کام ہوگا۔

مذکورہ ترامیم کے تحت اسٹیٹ بینک حکومت کو کوئی رقم ادھار دینے کا پابند نہیں تاہم اگر اسٹیٹ بینک میں مالی ذخائر یا سرمایہ منفی سطح پر گر گیا تو الٹا حکومت اسے ضروری رقم فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں ساری بازی پلٹ جاتی ہے۔

احتساب سے آزادی 

ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سمیت قومی و صوبائی تحقیقاتی و تفتیشی ادارے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی پر اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر، ڈائریکٹرز، حتیٰ کہ ملازمین تک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکیں گے۔

انتظامی اختیارات اور گورنر کا عہدہ 

پاکستان کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کیلئے کوآرڈی نیشن بورڈ کے کردار کوختم کردیا گیا ہے۔ گورنر اور وزیرِ خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام سرانجام دیں گے اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کو اسٹیٹ بینک بورڈ کی رکنیت سے الگ کردیا گیا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کو 3 کی بجائے 5 سال تک عہدے پر برقرار رکھا جائے گا۔ صدر کو اختیار ہے کہ وہ گورنر کو ہٹائے لیکن ایسا بہت ہی سنگین غلطی پر کیا جاسکے گا جس کی سنگینی کے متعلق فیصلہ عدالت کو کرنا ہوگا۔

یہاں ایک اچھی بات یہ ہے کہ مجوزہ ترامیم کے تحت دیہی علاقے، صنعتی شعبہ جات، ہاؤسنگ اور دیگر شعبوں کیلئے اسٹیٹ بینک پر قرض دینا لازمی قرار دے دیا گیا، لیکن حکومت ان شعبہ جات کیلئے قرض فراہم نہیں کرسکے گی۔ 

پنجاب حکومت کا مؤقف

صوبائی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث مجوزہ ترامیم کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، بصورتِ دیگر ایسی کوئی قباحت ہے نہیں جس پر واویلا کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کا کام ہی استحکام، ایکسچینج ریٹ کی نگرانی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے اور ترامیم سے یہ کردار مضبوط ہوگا۔

وزیرِ منصوبہ بندی پنجاب سلمان شاہ نے کہا کہ احتساب کے ادارے اگر اسٹیٹ بینک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ بینک داخلی طور پر احتساب کا ایک نظام رکھے گا۔یہ اچھی بات ہے کہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ پر فیصلہ سازی کے دوران نیب یا کسی احتسابی ادارے کا خوف نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کی رائے 

یہ تمام قانونی نکات مثبت ہیں یا منفی؟ اس پر ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملکی معیشت کے ساتھ خودمختاری کے نام پر ایک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

قیصر بنگالی نے کہا کہ مالیاتی اداروں کو قرض کی ادائیگی اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہوگی جبکہ مجوزہ ترامیم کے تحت حکومت کا کردار ختم کردیا گیا ہے۔ ذخائر میں کمی کی صورت میں ہر صورت پیسہ دینے کیلئے حکومت غیر ملکی قرضے حاصل کرے گی۔ اسٹیٹ بینکوں کی جگہ کمرشل بینکوں سے لیا گیا قرض مزید مہنگا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک میں کام کرنے والے افراد جوابدہی سے بالاتر قرار دئیے گئے ہیں یعنی اسٹیٹ بینک کے اقدامات قانون کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں گے۔ نئے بورڈ میں حکومتی نمائندگی موجود نہ ہونے کے باعث ملک کی زری و مالیاتی پالیسی کو مربوط کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ 

معاشی تجزیہ کار کی رائے 

معروف معاشی تجزیہ کار اور صحافی ضیاء الدین نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے نتیجے کے طور پر ملک میں سماجی انتشار جنم لے سکتا ہے۔ حکومت نے شاید آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہو کہ بل ضرور نافذ ہوگا، شاید یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ہمیں 50 کروڑ ڈالرز کی قسط مل گئی۔

ضیاء الدین نے کہا کہ جب یہ بل نافذ ہوگا تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں جس سے ملک کا ایٹمی پروگرام تک متاثر ہوسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور سرکاری ملازمین کیلئے حکومت تنخواہیں بھی جاری کرتے ہوئے مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ 

دوسرا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت 

بعض معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء نافذکرنے کی بجائے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے تو بہتر ہوگا کیونکہ تاحال یہ بات حکومت کے اختیار میں ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ اگر ملک غیر ترقیاتی اخراجات کم کردے تو معاشی پیشرفت ممکن ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں متعدد اشیاء جنہیں درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک سے پاکستان درآمد کی جارہی ہیں۔ دفاعی اخراجات میں کمی لائی جائے اور اسٹیٹ بینک اور دیگر سرکاری اداروں میں تعینات آئی ایم ایف کے نمائندگان کو برخاست کرنا ہوگا۔ 

حقیقت کیا ہے؟ 

بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ مرکزی بینک کو خود مختار بناتا ہے جس کا بظاہر کوئی اور مقصد نہیں ہے لیکن اسٹیٹ بینک میں آئی ایم ایف کے نمائندے موجود ہیں جو ملک کی معاشی ترقی کی بجائے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو ترویج دینے پر کام کریں گے۔

حکومت کے پاس احتساب کے جو اختیارات تھے، وہ ایکٹ کے نفاذ سے ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے اگر حکومت نے آئی ایم ایف ترمیمی ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسٹیٹ بینک کے داخلی احتسابی نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ملک کی معاشی ترقی مثبت سمت میں گامزن ہوسکے۔ 

Related Posts