خاموشی اور ناانصافی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ظلم انصاف کی ضد ہے اور انصاف کیلئے عدل کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی برابر برابر تولنے کے ہیں جس سے انصاف کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ 

قیس ابن ابی حازم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے لوگو! میں تمہیں قرآنِ پاک کی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنتا ہوں، اے ایمان والو! تم صرف اپنے ہی لیے ذمہ دار ہو۔ اگر کوئی انحراف کا فیصلہ کرے تو اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ تمہاری رہنمائی درست طریقے پر کی گئی ہے۔ اللہ کی طرف ہی تم سب واپس لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے افعال کے متعلق بتائے گا۔ (سورۂ المائدہ، آیت نمبر 105) لیکن میں نے رسولِ خدا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور اسے (ظلم کرنے سے) نہ روکیں، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو (اس جرم کی) سزا دے۔ (ابو داؤد اور الترمذی)

یہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم نکتہ بیان کیا کہ کچھ آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو کی جاتی ہے لیکن مناسب طریقے سے ان کی تشریح نہیں ہوتی جس سے آیت میں بیان کیا گیا مقصد درست طریقے سے بیان نہیں ہوتا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس آیت کی غلط تشریح پر درستگی فرما رہے تھے، آیت آپ کو ظلم دیکھتے ہوئے خاموش رہنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ ہم ایسی آیات کی تشریح کیلئے خاتم النبیین ﷺ کی ذاتِ والا صفات کی طرف دیکھتے ہیں، اسی لیے سنت کو تفسیرِ قرآن سمجھا جاتا ہے۔

اب آپ قرآنِ پاک کی مذکورہ آیت اور حدیث پر ایک بار پھر نظر ڈالیں تاکہ حقیقی مطلب سے آگہی ہوسکے۔ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ان لوگوں کیلئے ہے جو جو پہلے ہی اپنا فرض پورا کرچکے اور اپنے اردگر لوگوں کو تبدیل کرنے کی کوشش میں تھک چکے اور اب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد لوگوں اور معاشرے کو تبدیل نہیں کرسکتے۔

تاہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو مطمئن رہنے کا بہانہ مل گیا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی بہترین نسل (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہی آیت کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے تو کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے، جبکہ قرآن کے نزول کو 14 سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے؟

مندرجہ ذیل حدیث حضرت جابر نے بیان کی کہ جب ہجرت کرنے والے جنہوں نے سمندر پار کر لیا تھا، واپس اللہ کے پیغمبر ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بتاؤ کہ تم نے حبشہ کی سرزمین پر کون سی عجیب باتیں دیکھیں؟ مہاجرین میں سے کچھ جوان افراد نے جواب دیا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ جب ہم بیٹھے ہوئے تھے تو ایک بوڑھی راہبہ پانی کا برتن اپنے سر پر اٹھائے ہوئے گزری۔ وہ ان کے کچھ جوانوں کے درمیان سے گزری تو ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ اس کے کندھوں کے درمیان رکھ کر اسے دھکیلا۔ وہ اپنے گھٹنوں پر گر گئی اور اس کا برتن ٹوٹ گیا۔  جب وہ کھڑی ہوئی تو اس نے دھکیلنے والے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اے بے وقوف نوجوان،  جب اللہ تعالیٰ پہلی (روح) اورآخری (روح) کو جمع کرے گا اور ہاتھ اور پاؤں جو کرتے تھے، وہ بتا دیں گے، تمہیں اپنا مقدمہ اور میرا مقدمہ اس کے دربار میں نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ﷺ نے جواب دیا کہ اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا۔ اللہ تعالیٰ (گناہ کرنے والے) لوگوں کو کس طرح پاک کرسکتا ہے جب وہ (ظلم کرنے والے) طاقتور افراد کے مقابلے میں کمزوروں کی حفاظت نہ کریں؟ (ابنِ ماجہ)

صحابہ کرام ؓ جنہوں نے بزرگ راہبہ کا واقعہ بیان کیا، وہ حبشہ کی سرزمین پر مہاجر تھے اور مداخلت کی کوئی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ تاہم، اِس واقعے نے انہیں پریشان کیا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ معاملہ حضورِ اکرم ﷺ کے سامنے بیان کیا اور آپ ﷺ نے اس کی ذمہ داری معاشرے پر عائد کی، صرف اس نوجوان پر نہیں جس نے بزرگ راہبہ پر ظلم کیا تھا۔ معاشرہ ہی اس ظلم کا حوصلہ پیدا کرنے کا ذریعہ بنا جس سے وہ نوجوان سمجھا کہ غلط حرکت یا ظلم پر کوئی سزا نہیں ملے گی اور معاشرے نے بھی اس طرزِ عمل کو قبول کر لیا۔

تیسری حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کی جس میں ام المؤمنین نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ کیا ہم تب بھی تباہ کردئیے جائیں گے جب ہمارے درمیان نیکو کار لوگ موجود ہوں؟ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، اگر گندگی (بے بنیاد گناہوں) میں کثرت پیدا ہوجائے۔

لہٰذا تینوں احادیث سے مسلمانوں کو یہ سبق دینا مقصود ہے کہ اگر لوگ ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں تو اس کا خمیازہ ہر ایک کو بھگتنا ہوگا۔

ایک مسلمان کیلئے خاموشی حرام (یعنی جرم) بن جاتی ہے جب مندرجہ ذیل تین شرائط پوری ہوجائیں:

پہلی یہ کہ جب آپ کو یقین ہوجائے کہ منکر یعنی غلط کام ہو رہا ہے۔

دوسری یہ کہ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ برائی ہوچکی ہے (صرف بات چیت یا افواہوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹھوس حقائق یا ثبوت کی بنیاد پریقین ضروری ہے)۔

سوم جب زیادہ غالب امکان اِس بات کا ہو کہ جب کچھ کہا جائے گا تو وہ برائی یا تو ختم ہوجائے گی، رک جائے گی یا پھر کم ہوجائے گی۔

ہم غلط کاروں اور منکرین کو طاقت دینے کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔ نبئ آخر الزمان ﷺ نے ہدایت کی اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم اور ظالم کی مدد کرنا اسے ظلم سے روکنا ہے۔

کچھ ایسے حالات بھی ہوتے ہیں جن میں خاموشی جائز یا حلال یا پھر منع یا حرام ہوجاتی ہے اور کچھ ایسی بھی حدود و قیود شریعت نے واضح کی ہیں جن کے تحت خاموشی فرض بھی بن جاتی ہے۔

ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سنا کہ اللہ تعالیٰ حشر کے روز ایک بندے کو قصور وار ٹھہرائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ دیکھنے کے بعد تمہیں برائی کو (برائی) کہنے سے کس چیز نے روکا؟ بندہ جواب دے گا کہ اے میرے مالک، مجھے تجھ پر بھروسہ تھا اور میں نے لوگوں کو (تیرے بھروسے پر) چھوڑ دیا۔ یہ وہ شخص ہوگا جس نے تبدیلی لانے کیلئے کوشش کرکے ناکامی کمائی ہوگی، اور پھر لوگوں سے پیچھے ہٹ گیا ہوگا، اور اسے امید ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف فرمائے گا۔

کچھ ایسی صورتیں ہیں جب خاموشی مزید ضروری ہوجاتی ہے۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ جب منکر (یعنی برائی) آپ کے بولنے سے بڑھنے لگے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس پر ہم عموماً توجہ نہیں دیتے۔

Related Posts