حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف میں انصاف کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں کی تعلیمات کا حصہ رہا ہے۔

صحابئ رسول ﷺ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ابراہیم علیہ السلام کے صحائف کیا تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تماثیل تھیں (پھر آپ ﷺ نے اس وحی کی تلاوت کی جو ابراہیم علیہ السلام پر اتاری گئی تھی، جس میں کہا گیا کہ) اے بادشاہ کسے اختیار دیا گیا اور کس کی اس اختیار میں آزمائش کی گئی ہے جو اس اختیار سے دھوکا کھا گیا۔ میں نے تمہیں دنیا میں خوش قسمتی کو جمع کرنے کیلئے نہیں بھیجا بلکہ میں نے تمہیں مظلوم کی آواز کو مجھ سے روکنے کیلئے بھیجا کیونکہ میں کافروں کی طرف سے مظلوموں کی آواز کو مسترد نہیں کرتا۔  (ابنِ حبان)

مذکورہ حدیث ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبر انصاف کا درس دیتے تھے لیکن صرف قانون سازی میں اختلاف پایا جاتا تھا اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اختیارات سونپے جانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان ان لوگوں پر ظلم وزیادتی سے بچے جو اس کی رعایا میں شامل ہیں۔

لوگوں کا دنیاوی امور کو ہی سب کچھ سمجھ لینا اکثر ناانصافی کا باعث بنتا ہے۔ دنیا کی خوش بختی کو اکٹھا کرنا اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کی حمایت کرنا عموماً ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیا جاتا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرمائی کہ دنیا کی فلاح و بہبود کا تعاقب کرنا انصاف سے ہٹنے کے مترادف ہے۔ سرمایہ داری آج کے سب سے زیادہ استحصالی معاشی نظام کی ایک مثال ہے جو ظلم اور ناانصافی کا باعث بنتی ہے۔

اگلی حدیث جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ انصاف پسند نور کے منبروں پر بیٹھا ہوگا، جو لوگ اپنے فیصلوں اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اور جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں، اس کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کریں (صحیح مسلم)۔

ہمیں کئی اہم سبق اس حدیث سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ لوگ جو فیصلہ، ثالثی، حکومت یا تقسیم کا کام کرتے ہیں، وہ مقسطین ہیں۔ ممکنہ طور پر ان سے ناانصافی سرزد ہوسکتی ہے لیکن وہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مقسطین کے اعمال کے صلے کے طور پر منصفین کو نور کے منبروں پر بٹھائے گا۔ یہ نور کے ممبر منصفین کو رحمان یعنی اللہ تعالیٰ کی دائیں سمت میں عطا کیے جائیں گے۔ منصف ظالم کا متضاد ہے اور ظلم میں اقتدار کی بھوک بھی شامل ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ منصفین کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ مقسطین طاقت کے حصول کیلئے اقتدار کے راستے پر نہیں چلتے جس کے نتیجے میں وہ ظالم نہیں بنتے۔ لہٰذا آخرت کی زندگی میں انہیں روشنی کے ممبروں کا اعزاز دیا جاتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ قیامت کے روز 7 گروہوں کو اپنا سایہ عطا فرمائے گا جن میں سے پہلا گروہ منصفین کا ہوگا۔ امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے وضاحت کی ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ منصف حاکم معاشرے کیلئے نیک سلوک کی بنیاد قائم کرتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کا اطلاق صرف حکمرانوں پر نہیں ہوتا جیسا کہ مفسر ابنِ حجر نے کہا کہ باپ بچوں کا امام ہے، والدہ گھر کی امامت کرتی ہے، اساتذہ طلباء کے امام ہیں، مسجد کا امام نمازیوں کا امام ہے جبکہ آجر اپنے ملازمین کا امام ہے، جس کی تصدیق مندرجہ ذیل حدیث میں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سب کے سب ذمہ دار (یا چرواہے) ہو اور تم سب سے تمہارے ریوڑ (یا رعایا) کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حکمران اپنے معاشرے، مرد اپنے کنبے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور کنبے کی نگہبان ہے (بخاری  و مسلم)۔

ہم سب کو کوئی نہ کوئی ذمہ داری دی گئی ہے اور ہم اپنے فرائض کی بجا آوری کے ذمہ دار ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص سے جس حد تک اور جہاں تک ممکن ہوسکے انصاف پر قائم رہے اور جس کی رعایا جتنی زیادہ ہوگی، اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔

امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کے 2 گروہ ہیں۔ اگر وہ نیک ہیں تو لوگ نیک ہوں گے وار اگر وہ بدعنوان ہیں تو لوگ بھی بدعنوان ہوں گے۔ (وہ گروہ) عالم اور حکمران ہیں۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگوں کے دنیوی معاملات کو حکمران کنٹرول کرتے ہیں جبکہ دینی معاملات میں علمائے دین پیش پیش رہتے ہیں۔

ایک بار مصر کا حکمران ہرموزان خلیفہ کے ہمراہ ایک سیاسی کام سے مدینہ منورہ پہنچا۔ جب اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے اسے ایک درویش صفت شخص کی طرف بھیجا جو سکون سے ایک درخت کے سائے تلے بغیر کسی محافظ اور اسلحے کے سو رہا تھا۔ رومن نامہ بر یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ لاکھوں افراد کا سربراہ کسی بھی حفاظت کی پروا کیے بغیر ایک درخت کے نیچے سکون سے سو رہا ہے۔ بعد ازاں اس نے یہ مشہور الفاظ کہے جو آج تک تاریخ میں رقم ہیں کہ اے عمر آپ رضی اللہ عنہ نے حکمرانی کی۔ آپ انصاف پسند رہے۔ اس طرح آپ کو سیکیورٹی بھی مل گئی اور اس طرح آپ سکون سے سونے میں کامیاب رہے۔

ایسا شخص جو حکمران کی حیثیت سے انصاف کا انتخاب کرے، وہ ہمیشہ دنیا میں امن و سلامتی حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہاں جو بھی اچھے الفاظ تحریر کیے گئے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم فرمائی سے جبکہ غلطیاں میری انسانی خطاء کے باعث ہوئیں۔ 

Related Posts