توسیع کیس: سپریم کورٹ میں سابقہ 2 آرمی چیفس کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات طلب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

توسیع کیس: سپریم کورٹ نے سابقہ 2 آرمی چیفس کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات طلب کر لیے
توسیع کیس: سپریم کورٹ نے سابقہ 2 آرمی چیفس کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات طلب کر لیے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابقہ 2 آرمی چیفس کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات بشمول پنشن اور دیگر تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے پاک فوج کے جن دو سربراہان کی دستاویزات طلب کی ہیں، ان میں جنرل (ر) راحیل شریف اور جنرل )(ر) اشفاق پرویز کیانی شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ججز کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے جبکہ اس موقعے پر عدالت کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ غیر متعلقہ افراد داخل نہیں ہوسکتے جبکہ داخلے سے قبل کیس کی سماعت کے لیے آنے والے افراد کی سخت چیکنگ کی جارہی ہے۔

حکومت کی طرف سے کیس کا دفاع کرنے کے لیے اٹارنی جنرل انور منصور ، سابق وزیر قانون فروغ نسیم اور دیگر پیش ہوئے جس کے بعد سماعت کا آغاز کیا گیا۔

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت توسیع کا تیسرا نوٹیفیکیشن پیش

سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کی خدمت میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا تیسرا نوٹیفیکیشن پیش کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے سوالات اٹھا دئیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ آج آپ تیسری بار جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن لائے ہیں، آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے اگر مختلف ہے تو کیسے؟

عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 243 ون بی کے تحت جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے تاکہ سپریم کورٹ کے تمام تر تحفظات دور ہوجائیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ بتایا جا رہا ہے کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر یہی بات ہے تو پنشن کیوں دی جاتی ہے؟ اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پنشن بھی نہیں ہوتی ہوگی۔سپریم کورٹ فیصلوں کے حوالے دینے سے گریز کریں۔ 

 کیس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے جسے پر کرنے کے لیے قواعد و ضوابط اور آئینِ پاکستان کی پاسداری ضروری ہے۔ سپریم کورٹ فیصلوں کے حوالوں سے محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کا کندھا استعما کیا جا رہا ہے۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ عدالت میں جو سمری پیش کی گئی ہے، اس میں آرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات کا کوئی ذکر نظر نہیں آیا۔ اس معاملے پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔

 مقدمے میں 2 نئے نکاتِ اعتراض

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے  نکتۂ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اگر آرمی چیف نہ ہوں تو انہیں تعینات کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ وہ تو پہلے ہی آرمی چیف ہیں، آپ نے اس پر انہیں تعینات کیسے کردیا؟

دوسرانکتۂ اعتراض سامنے لاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے تحت بنائی گئی حکومتی سمری میں مدتِ ملازمت 3 سال لکھی گئی۔ اس سے 243 کی شق پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی کہ اگر آئندہ بھی توسیع کی گئی تو وہ 3 سال کے لیے کی جائے گی۔ 

 یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم  پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سینئر کابینہ اراکین کے ساتھ حکومت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک ہوئے جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کیس پر غور کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں  پیش آنے والی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ حکام نے گزشتہ روز  آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے جاری کردہ سابقہ دونوں نوٹیفیکیشنز پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر تبادلۂ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت سینئر کابینہ اراکین کا ہنگامی اجلاس

Related Posts