اپوزیشن کا گلگت بلتستان میں دھاندلی کا الزام اور ہنگامے، کیا کرفیو نافذ ہوسکتا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اپوزیشن کا گلگت بلتستان میں دھاندلی کا الزام اور ہنگامے، کیا کرفیو نافذ ہوسکتا ہے؟
اپوزیشن کا گلگت بلتستان میں دھاندلی کا الزام اور ہنگامے، کیا کرفیو نافذ ہوسکتا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گلگت بلتستان کے انتخابات میں تحریکِ انصاف جیت گئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ناکام قرار پائیں تاہم اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات پر گزشتہ روز سے ہی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ جاری ہے۔

گزشتہ روز بھی پیپلز پارٹی کارکنان نے محکمۂ جنگلات کا آفس اور 4 گاڑیاں جلانے کے ساتھ ساتھ فائربریگیڈ پر پتھراؤ کیا جس سے گلگت بلتستان کے حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔

آئیے گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی گلگت بلتستان انتخابات میں کوئی دھاندلی ہوئی؟ اور کیا یہ ہنگامے اتنے شدید ہیں کہ حکومت کو گلگت بلتستان میں کرفیو لگانا پڑے؟

دھاندلی کے الزامات، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایات پر پی پی پی کارکنان نے احتجاج کیا، مشتعل مظاہرین کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری موقعے پر پہنچی جس نے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی۔

دراصل بلاول بھٹو زرداری پر امن احتجاج کر رہے تھے لیکن اچانک ہی یہ احتجاج جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں بدل گیا جس سے شہریوں کو شدید کوفت اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

حکومت نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی ذمہ دار ہیں جبکہ دوسری جانب سے اس کا انکار کیا گیا۔

توڑ پھوڑ کی وجوہات  اور الزامات کی سیاست 

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا تھا جن کا کہنا تھا کہ حکومت نے راتوں رات بیٹھ کر انتخابی نتائج تبدیل کردئیے، کھلم کھلا دھاندلی ہوئی اور اپوزیشن کے ووٹ حکومت نے اپنے حق میں کر لیے۔

حکومت پر اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی الزام ہے کہ اس نے ضلعی انتظامیہ کو اپنے حق میں استعمال کیا، حکومتی مشینری کا استعمال تحریکِ انصاف کو سیاسی سیٹیں دلوانے کیلئے کیا گیا اور اسی طرح کے دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے۔

یہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں تو یہاں تک کہتی ہیں کہ الیکشن کمشنر گلگت بلتستان بھی تحریکِ انصاف کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے انتخابی نتائج تبدیل ہونے دئیے، تاہم الیکشن کمشنر، انتظامیہ اور وفاقی حکومت نے یہ بات تسلیم نہیں کی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ عوام نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ملک دشمن اور اداروں کے خلاف نظرئیے اور بیانات کو مسترد کردیا۔ آج گلگت بلتستان کے چپے چپے پر تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوگی۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں نہ صرف تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں بلکہ جیتنے والے آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں جس سے اپوزیشن رہنما سخت ناراض نظر آتے ہیں۔

وعدہ خلافی کا الزام 

تحریکِ انصاف کی وفاقی و گلگت بلتستان حکومت پر اپوزیشن رہنماؤں نے وعدہ خلافی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہم نے دھاندلی پر احتجاج کیا تو ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ ہر پوسٹل بیلٹ کے ووٹ کی گنتی ہوگی، تاہم حکومت اس سے مکر گئی ہے۔

حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے بلکہ انتخابات چرا کر، بیلٹ باکسز میں دھاندلی کا عمل جاری و ساری ہے جو ہم نہیں ہونے دیں گے۔

راجہ شہباز خان جو چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن افسران کی موجودگی میں پی پی پی امیدوار دلائل دے رہے تھے جو 1 گھنٹے بعد اچانک احتجاج کرنے لگے۔ ہمارا کسی پارٹی سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ فرض کریں کہ معاہدہ ہوا بھی ہے تو انتخابات قانون کے تحت ہوتے ہیں نہ کہ معاہدوں کے مطابق۔

پی پی پی کا الزام ہے کہ ان کے پر امن کارکنان پر پولیس نے آنسو گیس پھینکی اور عوام کو مشتعل کرنے میں مصروف رہی۔ انہوں نے کہا کہ توڑ پھوڑ حکومت نے کی جس کا الزام پی پی پی اور دیگر جماعتوں پر لگایا جارہا ہے۔ 

ڈی آئی جی گلگت اور پی پی پی کا مؤقف 

پولیس کے اعلیٰ آفیسر ڈی آئی جی گلگت رینج کے مطابق 20 سے 25 افراد نے شرپسندی کی جس کے باعث احتجاج میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس پر سی سی ٹی وی کی مدد سے تحقیقات جاری ہیں۔

سعدیہ دانش جو پی پی پی  کی سیکریٹری اطلاعات ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ہم پر امن احتجاج کر رہے تھے لیکن پولیس طاقت کا استعمال کرنے پر اتر آئی۔ پولیس اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور لاٹھی چارج کیا جس کی ذمہ دار مقامی انتظامیہ ہے۔

جی بی (گلگت بلتستان) حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے سول سیکرٹریٹ پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ نامعلوم افراد نے گاڑیاں جلائیں جن کا ہم تعاقب کر رہے ہیں۔ 

جی بی ایل اے 2 میں دوبارہ گنتی اور کرفیو کے نفاذ کا امکان 

پاکستان پیپلز پارٹی کا حکومت پر یہ الزام ہے کہ اس نے تحریکِ انصاف کے امیدوار کو جتوانے کیلئے الیکشن کمیشن کا ریکارڈ بھی غائب کردیا تھا۔ جی بی ٹو میں تحریکِ انصاف کے امیدوار فتح اللہ پی پی پی امیدوار جمیل احمد سے 2 ووٹوں سے جیت گئے جبکہ الیکشن کے ان نتائج کو پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا۔

احتجاج کے بعد جب جی بی 2 میں دوبارہ گنتی ہوئی تو پھر پی ٹی آئی جیتی۔ جو امیدوار پہلے 2 ووٹوں سے جیت رہا تھا، اب 96 ووٹوں سے کامیاب قرار پایا۔ نتائج کے مطابق فتح اللہ خان کو 6880 ووٹ ملے جبکہ پی پی پی امیدوار جمیل احمد 6764 ووٹ حاصل کرسکے۔

یہی وہ مسئلہ تھا جس کے نتیجے میں جھڑپیں شروع ہوئیں۔ ڈی آئی جی گلگت رینج وقاص احمد نے کہا کہ ابھی تو حالات قابو میں ہیں لیکن اگر دوبارہ بگڑ گئے تو کرفیو بھی لگا سکتے ہیں۔ 

حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟

پی ٹی آئی حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے تحفظات کو دور کرے اور کرفیو کے نفاذ کی بجائے معاملے کے سیاسی حل پر توجہ دے۔

قانون ساز گلگت بلتستان اسمبلی کے حلقہ جی بی ایل اے 21 غذر 3 کے تمام 52 پولنگ اسٹیشنز پر گزشتہ روز ووٹوں کی گنتی دوبارہ شروع کی گئی۔ اگر گلگت بلتستان کے حالات کو قابو میں رکھنا ہے تو انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کو صاف و شفاف بنانا ضروری ہے۔ 

Related Posts