بابائے قوم کا اسلامی نظریۂ پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سن 1947ء میں 14 اگست کے روز قیامِ پاکستان نہ صرف برصغیر کے عوام بلکہ جدید اسلامی تاریخ کیلئے بھی ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ پاکستان وہ واحد ملک تھا جو نظریۂ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا۔

اپنے قیام کے 70 سال بعد بھی ریاستِ پاکستان بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نظریات کی روشنی میں اپنا کردار نبھانے میں دو الگ الگ نظریات میں منقسم نظر آتی ہے یعنی ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا بابائے قوم اسے ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے؟

قائدِ اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت جو مذہب بیزار اور سیکولر طبقہ پیش کرتا ہے وہ بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا  11 اگست 1947ء کے روز پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب ہے۔

میرا یقین یہ کہتا ہے کہ قائدِ اعظم کی 11 اگست کی تقریر بنیادی اسلامی اصولوں اور روایات سے ثابت ہے جو ہم حضورِ اکرم ﷺکے زمانے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میثاقِ مدینہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بہت سے علماء یہ یقین رکھتے ہیں کہ میثاق، مدینہ وہ پہلا تحریری آئین ہے جو آگے چل کر پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد بنا۔

روشن خیال کہلانے والا سیکولر طبقہ قائدِ اعظم کی تقریر کے جو اقتباسات پیش کرتا ہے وہ ان کے اس نظرئیے کو تقویت پہنچانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:

اگر آپ اپنا ماضی تبدیل کرکے ہمارے ساتھ اِس عزم کے ساتھ کام کریں کہ آپ میں سے ہر ایک، چاہے اس کا تعلق کسی بھی معاشرے سے ہو، ماضی میں آپ کے ساتھ اس کے تعلقات کچھ بھی رہے ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا رنگ، نسل اور ذات پات کیا ہے، تو وہ پہلا، دوسرا، تیسرا شہری اِس ریاست کا ایک ایسا شہری ہوگا جو دیگر ہر شہری کے مقابلے میں یکساں حقوق رکھتا ہوگا۔ اس کو دی گئی سہولیات اور فرائض بھی یکساں ہوں گے اور آپ جو ترقی کریں گے، اس میں ریاست کبھی رکاوٹ نہیں بنے گی۔

آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں اور مساجد میں جانے کیلئے یا ریاستِ پاکستان میں واقع اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا رنگ و نسل سے ہوسکتا ہے، جس کا ریاستِ پاکستان کے افعال سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔

ہم اپنا آغاز ان دنوں کر رہے ہیں جب کہیں امتیاز موجود نہیں اور ایک معاشرے اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں، ایک رنگ و نسل اور دوسری کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ ہم اِس بنیادی اصول کے ساتھ اپنا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور ہمیں یکساں حقوق حاصل ہیں۔

اب میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں اِس بات کو اپنے سامنے ایک مثال کے طور پر رکھنا ہوگا اور آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ ان دنوں ہندو اور مسلمان، ہندو اور مسلمان نہ رہے۔

یہ مذہبی بنیاد پر نہیں ہوا کیونکہ یہ ہر شخص کا انفرادی نظریہ ہوتا ہے لیکن ایسا سیاسی بنیاد پر کیا گیا کیونکہ تمام شہری ریاست کیلئے برابر ہیں۔

تاہم مندرجہ بالا اقتباسات کو پڑھتے ہوئے اسلامی تاریخ سے واقف کوئی بھی شخص آسانی سے یہ دلیل دے سکتا ہے کہ قائدِ اعظم کا مذکورہ بالا خطاب اپنے الفاظ اور معانی دونوں کے اعتبار سے میثاقِ مدینہ سے مشابہت رکھتا ہے۔

پروفیسر شریف المجاہد مرحوم (جو فکرِ قائد کے حوالے سے اہم دانشور سمجھے جاتے ہیں) نے قائدِ اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو میثاقِ مدینہ مین بیان کردہ اصولوں اور حقوق کے مطابق قرار دیا ہے۔

اگر ہم یہ سمجھیں کہ ریاستِ مدینہ میثاقِ مدینہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تو ٍقائدِ اعظم کی 11 اگست کی تقریر ان عظیم روایات سے کوئی بڑا انحراف کرتی نظر نہیں آتی جو حضورِ اکرم ﷺ اورمسلمانوں کی ابتدائی نسلوں نے قائم کیں۔

اگر ہم اسلامی تاریخ میں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام مساوات، صبر و تحمل اور عدل و انصاف پر مبنی روایات کو فروغ دیتا ہے۔

ابراہم لنکن کو جس طرح یہ یقین تھا کہ امریکا جمہوریت کی عظیم تجربہ گاہ ثابت ہوگا، قائدِ اعظم یہ یقین رکھتے تھے کہ پاکستان اسلام کیلئے عظیم تجربہ گاہ ثابت ہوگی جہاں ہم جدید دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر عمل کرسکیں گے۔

1946ء میں اسلامی کالج پشاور میں کی گئی ایک تقریر میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ کہ ہم پاکستان  کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکرا حاصل کرنے کیلئے نہیں کر رہے ، بلکہ ہمیں ایک تجربہ گاہ چاہئے جہاں ہم اسلامی اصولوں پر عمل کرسکیں۔

15 جون 1945 کو فرنٹیئر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو دئیے گئے پیغام میں قائدِ اعظم نے فرمایا پاکستان کا مطلب صرف آزادی نہیں بلکہ نظریۂ اسلام بھی ہے جس پر عمل ضروری ہے۔

اگست 1941ء میں حیدر آباد دکن کے دورے کے موقعے پر قائد، اعظم محمد علی جناح نے اسلامی ریاست کی تعریف فرمائی:

بنیادی طور پر ایک اسلامی ریاست میں تمام تر طاقت اور اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ حکومتی کام مکمل طور پر قرآنی اصولوں اور ضوابط کی بنیاد پر انجام دئیے جاتے ہیں۔

نہ کوئی سربراہ، نہ پارلیمان، نہ فرد اور نہ ہی کوئی ادارہ کسی بھی معاملے میں اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ معاشرے اور سیاست  پر صرف قرآنی اصولوں کی حکمرانی ہوتی ہے۔

باالفاظِ دیگر اسلامی جمہوریت کی حکمرانی سے مراد شرعی قوانین کا راج ہے۔ یہی شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا نظریہ تھا اور سن 1949ء میں منظور کی گئی قراردادِ مقاصد سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔

جنوری 1948ء میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقعے پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے واضح کیا کہ آئینِ پاکستان کا مستقبل شریعتِ اسلامیہ پر مبنی ہوگا۔ آپ نے سوال کیا کہ لوگ یہ خدشات کیوں رکھتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کا مستقبل شرعی قوانین سے منحرف ہوسکتا ہے؟

آج بھی اسلامی اصول و ضوابط زندگی پر اُسی طرح نافذ کیے جاسکتے ہیں جیسا کہ آج سے 1300 سال پہلے کیے جاسکتے تھے۔ میں ایک طبقے کے لوگوں کو سمجھ نہیں سکا جوشر پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ آئینِ پاکستان شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ 

اسی طرح کا ایک پیغام اسی روز شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے بادشاہی مسجد لاہور میں دیا اور کہا کہ پاکستانی قوم کے پاس دنیا کو دینے کیلئے ہمارے عظیم نبی ﷺ سے الگ کوئی اور پیغام نہیں ہے۔

پاکستانی قوم کا نظریہ دنیا کے سامنے اسلامی اصولوں پر عمل ہوگا جو 1300 برس سے زیادہ پرانے ہیں، اس کے باوجود نوعِ انسانی کے ان گنت اور پریشان کن مسائل کا حل ان اصولوں میں موجود ہے۔

میرا خواب ہے کہ پاکستان قائدِ اعظم، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے نظریات کی روشنی میں زبردست اسلامی فلاحی ریاست بنے جہاں معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی دیکھ بھال ریاست کا فرض ہو اور جہاں اسلامی روایات کے بہترین اصول، رحم دلی، مہربانی، سخاوت اور صبر و تحمل کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہو جو ہمیں رسولِ کریم ﷺ اور خلفائے راشدین نے سکھائے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے انہیں اپنانے کا عزم کیا۔

قائدِ اعظم کے پاکستان پر یقین رکھنے والے عوام کی طرح میں بھی یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا یہ مقصد ہمیشہ زندہ رہے گا اور یہ خواب کبھی نہیں مرسکتا۔

Related Posts