پنجاب: گورنر، وزیر اعلیٰ کشمکش کا آخری نتیجہ کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پنجاب میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے مابین سیاسی لڑائی اپنے اہم اور فیصلہ کن راﺅنڈ میں داخل ہوگئی ہے۔
اس بار لڑائی گورنر پنجاب کے گرد گھوم رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے پنجاب اسمبلی میں اکثریت تبدیل کرنے کے لئے اپنی کمر کس لی ہے، سیاسی بازی گر اور جوڑتوڑ ، خریداری کے ماہرین ان کی جانب سے متحرک ہوچکے ہیں۔ تخت الٹانے اور مخالف کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لینے کے ماہر سمجھے جانے والے آصف زرداری اپنی خرابی صحت کے باوجود ایکٹو ہوئے ہیں، انہوں نے چودھری شجاعت سے ملاقاتیں کی ہیں، وہ کوئی بڑا کارڈ، کوئی غیر معمولی سرپرائز دینے کے کوشاں ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آخری بار سابق صدر زرداری جب چودھری شجاعت سے ملے تھے تو ایک بڑا سرپرائز ”ہاﺅس آف چودھریز“ میں دراڑ کی صورت میں نمودار ہوا تھا۔ وہ چودھری برادران جو پچھلے چالیس سال سے متحد اور یک جان ہو کر سیاست کر رہے تھے، جناب زرداری کی ملاقات کے نتیجے میں الگ ہوئے۔ چودھری شجاعت نے نہ صرف پی ڈی ایم کا ساتھ دے کر اپنے صاحبزادے چودھری سالک کو وفاقی وزیر بنوایا بلکہ ق لیگ کے اراکین صوبائی اسمبلی کو خط لکھا کہ وہ وزیراعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کے خلاف ووٹ دیں۔ یہ وہ بات تھی جس کا کوئی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ایسا مگر ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کیا سامنے آتا ہے ؟
صدر زرداری اور چودھری شجاعت کے جوڑتوڑ سے زیادہ اس وقت اہم گورنر پنجاب کا کردار ہے۔ گورنر بلیغ الرحمن کا تعلق بہاولپور سے ہے، میرے آبائی ضلع سے۔ بلیغ الرحمن ایک سادہ، نرم مزاج ، شریف النفس آدمی سمجھتے جاتے ہیں، ان کا تعلق بہاولپور کے معروف سیاسی خانوادے سے ہے ، ان کے بزرگ وہاں اہم سیاسی کردار ادا کرتے رہے۔ ن لیگ سے ان کا تعلق ہے اور بہاولپور میں تاثر یہ ہے کہ وہ شریف خاندان سے ذاتی مراسم رکھتے ہیں، بہاولپور شہر کی سیٹ سے وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وزیراعظم نواز شریف نے انہیں وفاقی وزیر بنایاتھا، میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ سے تب بلیغ الرحمن کے رشتے کے بھانجے ن لیگ ہی کے ٹکٹ سے ایم پی اے بنے تھے ۔ دلچسپ بات ہے کہ بلیغ الرحمن نے اپنے اس الیکشن (2013)میں جماعت اسلامی کے معروف سیاستدان ڈاکٹر وسیم سے اپنے طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی، ڈاکٹر صاحب مرحوم تب ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔
نرم مزاج بلیغ الرحمن کو اس بار سخت اور جارحانہ انداز اپنانا پڑ رہا ہے، یہ حالات کا جبر ہے، ورنہ وہ اس انداز کے جوڑتوڑ اور سازشوں والے آدمی نہیں ہیں۔ اس بار مگر انہیں اپنے روایتی کردار سے خاصا آگے نکلنا پڑے گا، کرکٹ کی اصطلاح میں کریز سے باہر نکل کر چھکا مارنے کی کوشش۔
گورنر نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے، اسی پر تنازع کھڑا ہوا۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو گورنر انہیں ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں ، چودھری پرویز الٰہی کی حکومت اور کابینہ تب ختم ہوجائے گی۔
سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، ان کا خیال مختلف ہے۔ انہوں نے گورنر کے حکم کے خلاف رولنگ جاری کی اور دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ اسمبلی کا سیشن پہلے سے جاری ہے، اس لئے گورنر نیا اجلاس کیسے بلا سکتے ہیں ؟دوسرا نکتہ سپیکر کی رولنگ کا یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے ، اور ہم اسے ٹیک اپ کر رہے ہیں جمعہ کے اجلاس میں۔ اس لئے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوئی تک نہیں ہے۔
اس کے ساتھ سپیکر پنجاب اسمبلی نے صدرمملکت کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے جناب صدر سے درخواست کی ہے کہ چونکہ گورنر پنجاب غیر آئینی کام کر رہے ہیں، اس لئے انہیں ہٹایا جائے، سپیکر نے اپنے اس خط میں بہت سے قانونی دلائل اور حوالے بھی دئیے ہیں جن میںمشہور منظور وٹو کیس بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ اوکاڑہ کے معروف سیاستدان منظور وٹونوے کے عشرے میں جب وزیراعلیٰ تھے تو تب گورنر نے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا، اس وقت صوبائی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔معاملہ تب عدالت میں گیا تھا اور عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر صوبائی اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو گورنر کسی بھی صورت میں وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتا، اسی میں یہ بھی کہا گیا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کم از کم دس دن کی مہلت دی جائے۔ویسے یہ دس دنوں کی مہلت والی بات قابل فہم ہے کیونکہ اراکین اسمبلی مختلف غیر ملکی دوروں پر آتے جاتے رہتے ہیں، اگر اچانک اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے تو فطری طورپر وزیراعلیٰ کے لئے دو دنوں میں اپنے سب اراکین اسمبلی اکھٹے کرنا مشکل ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ گورنر بلیغ الرحمن نے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے صرف دو دن کا وقت دیا ۔
تازہ ترین یہ ہے کہ گورنر صاحب نے سپیکر کی رولنگ مسترد کر دی ہے اور انہیں آئین کے مطابق اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ ویسے یہ بھی دلچسپ بات ہے، اگلے دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو آئین کے مطابق کردار ادا کرنے کا کہتے رہیں گے جبکہ دوسرا جواب میں یہی کہے گا کہ اس سے زیادہ آئین کا پابند کوئی اور نہیں اور کہنے والا خود غیر آئینی کام کر رہا ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کا مخصوص سٹائل ہے۔
توقع ہے کہ آج رات بارہ بجے گورنر صاحب وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا حکم صادر فرمائیں گے، اس کے بعد صوبائی کابینہ ختم ہوجائے گی اور وزیراعلیٰ ہاﺅس کو بھی چودھری پرویز الٰہی کے لئے ممنوعہ جگہ بنا دیا جائے گا۔ فطری طور پر کل صبح پہلا کام چودھری صاحب عدالت میں جانے کا کریں گے۔ یوں معاملہ ممکنہ طور پر لاہور ہائی کورٹ میں جائے گا، البتہ یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کا رخ کیا جائے یا سپریم کورٹ ہی سوموٹو نوٹس لے لے۔
اگلی جنگ عدالت ہی میں لڑی جائے گی، وہی طے کرے گی کہ کون آئین پر عمل پیرا ہے اور کون غیر آئینی کام کر رہا ۔ رات بارہ بجے کا انتظار اس لئے کہ اکیس کا دن ختم ہوجائے اور بائیس تاریخ شروع ہو،تاکہ بعد میں کہا جا سکے کہ ہم نے رات بارہ بجے تک انتظار کیا۔
اب یہاں پر دو باتیں دلچسپ ہیں۔ ایک میاں نواز شریف کے حوالے سے ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے شہباز شریف کو گرین سگنل دے دیا ہے کہ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے ، پھر جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔میاں صاحب آل آﺅٹ وار کے لئے تیار ہیں۔ دوسری بات جسے خبر سے زیادہ افواہ ہی تصور کریں ، وہ یہ کہ تحریک انصاف کے بعض حلقوں کی کوشش ہے کہ صدر عارف علوی بھی جوابی طور پر گورنر کو غیر آئینی کردار ادا کرنے کی پاداش میں ہٹا دیں۔ یاد رہے کہ صدر کو لگانے یاہٹانے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہوتا ہے، اگرچہ وہ ایسا وزیراعظم کے کہنے پر ہی کرتا ہے۔
ایک اہم سوال جو بہت سے ذہنوں میں تھا کہ عمران خان نے تیئس تاریخ کا دن مقرر کرنے کے بجائے فوری طور پر اسمبلی تحلیل کیوں نہیں کر دی ؟ مثال کے طور پر وہ ہفتہ سترہ دسمبر کو لاہور جلسے میں اپنی تقریر سے پہلے ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھجوا سکتے تھے۔ تب تک گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا اور نہ ہی پی ڈی ایم نے اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔ وہ پیر کی صبح بھی یہ کام کر سکتے تھے۔ پانچ دن کا گیپ ڈالنے سے پی ڈی ایم کو اپنا کام کرنے کا موقعہ مل گیا۔
عمران خان سے یہ سوال بار بار پوچھا جاتا رہا ہے، اگلے روز ایڈیٹروں سے ملاقات میں یہ بات پھر کہی گئی تو عمران خان کا جواب تھا کہ میں نے دانستہ ایسا کیا کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی غیر جانبدار ہے یا نہیں؟
عمران خان کے بقول جب دس اپریل کو انہوں نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں منظور ہونے سے پہلے اپنا مشہور فقرہ کہا تھا کہ کوئی میرے خلاف رہ تو نہیں گیا؟ تب بھی یہی صورت تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ادارے ان کے خلاف ہوچکے تھے۔ اب وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون کہاں کھڑا ہے؟ اس میں چودھری پرویز الٰہی اور ق لیگ بھی شامل ہے جبکہ تحریک انصاف کے اندر کے کچھ لوگوں کو بھی وہ ٹیسٹ کرنا چاہ رہے ہیں ۔ اگلے دو تین دنوںمیں عمران خان کو اپنے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟
ایک بات تو یقینی ہے جنگ عدالت میں لڑی جائے گی۔ عدالت بعض اصول طے کرے گی اور پھر معاملہ اسمبلی کو بھیج دے گی۔
اگلی لڑائی اسمبلی میں ہوگی اور تب ق لیگ کے دس اراکین اسمبلی غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اگر باغی ہوجائیں اور عمران خان کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈال دیں تو کوئی فائدہ نہیں، ان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے اور وہ فوری نااہل ہوجائیں گے۔ ق لیگ کے اراکین اسمبلی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ اگر دس میں سے صرف چھ اراکین اسمبلی بھی حمزہ شہباز کو سپورٹ کریں تو وہ وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔
دوسرا یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ اراکین اسمبلی اپنی نااہلی کا خطرہ مول لیتے ہوئے ووٹ ڈال دیں یا استعفا دے دیں۔ اس سے تحریک انصاف کے ووٹ کچھ کم ہوجائیں گے اور ضمنی الیکشن ہونے تک ان کی اکثریت نہیں رہے گی اور یوں حمزہ شہباز کے جیتنے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
اس سب میں ایک بہت ہی طاقتور اور اہم ایکس فیکٹر ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پوزیشن ہے، وہ کس کی سائیڈ لے گی؟
اس بارے میں صرف ایک فقرہ مزید یہ کہ لاہور میں وزیراعلیٰ ہاﺅ س کے گرد کنٹینر کھڑے کر دئیے گئے، مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کنٹینر کس نے کھڑے کئے؟ پنجاب پولیس اس بارے میں لاعلمی ظاہر کر رہی ہے۔
براہ کرم مجھ سے یہ نہ پوچھئے کہ کس نے یہ کیا۔ اس کا جواب آپ خود سوچنے اورکھوجنے کی کوشش کیجئے، ہم اخبارنویسوں پر اتنا ہی وزن ڈالیں، جتنا ہم اٹھا سکیں۔

Related Posts