اسلام میں زنا کی سزا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلامی شریعت کے اہم  اصولوں میں سے ایک بہت اہم اصول خاندان اور عزت و ناموس کی حفاظت ہے۔

سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون کے ساتھ زنا کیا گیا جبکہ وہ نمازِ فجر کی ادائیگی کیلئے مسجد کی طرف جارہی تھی۔ مذکورہ خاتون نے خاتم النبیین ﷺ سے شکایت کی کہ میرے ساتھ زنا ہوا ہے اور ایک شخص جو گنہگار سمجھا گیا، آپ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا لیکن حضورﷺ کی مزید پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ وہ شخص بے قصور تھا جسے چھوڑ دیا گیا۔ تاہم، ایک اور شخص آگے آیا اور اعترافِ جرم کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ہی مذکورہ خاتون کے ساتھ زنا کیا ہے، جس پر مذکورہ شخص کو سزائے موت دی گئی اور نبئ اکرم ﷺ نے زنا کا شکار خاتون سے ہمدردی سے گفتگو کی اور اسے آگاہ کیا کہ واقعے میں اس پر کچھ گناہ نہیں۔

یہ واقعہ ہمیں بہت سے سبق سکھاتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جنسی تشدد کے جرائم  ہر معاشرے میں ہوتے ہیں چاہے وہ رسول اللہ ﷺ کا بابرکت شہر مدینۃ النبی ہی کیوں نہ ہو۔ مدینۃ النبی میں عوام ایمان کے ایسے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے جس کی مثال انسانی تاریخ میں دستیاب نہیں اور یہ ایک قابلِ تقلید معاشرہ تھا، تاہم اس دور میں بھی مجرم اور جرائم پیشہ افراد موجود تھے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ معاشرے سے جرائم کو کبھی ختم نہیں کرسکتے، جو ایک حقیقت ہے۔

قانون اور شریعت کی تبلیغ جو کرسکتی ہے، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ تصور کیجئے کہ کہاں مدینۃ النبی اور دورِ نبوت اور کہاں زنا جیسا بد ترین جرم جو صحابہ کے دور میں ہی واقع ہوا۔  برائی ہر جگہ موجود ہوتی ہے چاہے وہ مدینہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کے مدینہ میں ہر شخص شریعت پر عمل پیرا تھا اور اسلامی شعائر پر پوری طرح عملدرآمد ہوتا تھا۔ اسلامی لباس پہنے جاتے تھے اور پھر بھی زنا جیسا جرم ہوگیا۔ نتیجتاً یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ یقین رکھنا کہ ہر خاتون اگر اسلامی لباس پہننے لگ جائے تو جنسی جرائم اور زنا نہیں ہوگا، لغواور بے بنیاد بات ہے۔

ہم اِس حدیث سے ایک دوسرا سبق بھی سیکھ سکتے ہیں۔ خاتون اکیلی ہی مسجد کی طرف جا رہی تھی لیکن نبی اکرم  ﷺ یا صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اسے اکیلے گھر سے نکلنے پر سرزنش نہیں کی۔ خاتون ایک شرعی سبب سے ہی گھر سے باہر نکلی تھی، لہٰذا اُس کا زنا ہونے میں اس کی اپنی کوئی غلطی نہیں تھی۔ اِس لیے، سبق یہ ہے کہ کبھی بھی جنسی تشدد کا شکار افراد کو بے جا موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔

اِسی حدیث سے ہم ایک تیسرا سبق بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تصور یہ ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار افراد کو چپ رہنا چاہئے تاکہ ان کی عزت بچ جائے جبکہ عزت بچانے کیلئے جرم پر خاموش رہنا بد ترین غلطی ہے۔ کسی نے بھی خاتون کو یہ نہیں کہا کہ اپنی یا زنا کار کی عزت بچانے کیلئے خاموش ہوجاؤ کیونکہ زناکار کی کوئی عزت یا رتبہ باقی نہیں رہتا جس کی حفاظت ضروری ہو بلکہ اسلام میں یہ جنسی تشدد کا شکار افرد کا حق ہے کہ وہ کھل کر اس شخص کا جرم بتائیں جس نے انہیں نقصان پہنچایا ہو۔

ایک اور نکتہ جو ہم اِس حدیث سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے جنسی زیادتی کا شکار خاتون سے ہمدردی سے گفتگو کی اور اسے بتایا کہ وہ گنہگار نہیں تھی۔ یہ ایک عام فہم سی چیز ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار کوئی بھی فرد خود کبھی گنہگار نہیں ہوتا اور اسے یہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں اس کا کوئی قصور تھا۔

شریعت میں زنا کوحرابہ کہا جاتا ہے جو قانونی طور پر ہائی وے پر ہونے والے ڈاکے، جنسی زیادتی اور دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ اِس قسم کے جرم کی سزا قرآنِ پاک کی سورۂ مائدہ، آیت نمبر 33 کے ترجمے سے واضح ہے:جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے۔

مذکورہ آیت میں بھی یحاربون کا لفظ استعمال ہوا اور حرابہ سے مراد زمین پر فساد، برائی اور بدعنوانی پھیلانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے جرائم جو معاشرے اور معاشرتی قوانین کو تباہ کریں، حرابہ کہلاتے ہیں۔ اسلامی منصف یا حکمران ایسے جرائم پر چار قسم کی سزائیں دے سکتا ہے جن میں سر قلم کرنا، سولی چڑھانا، جسم یا اعضاء کاٹ دینا یا جلا وطن کرنا شامل ہے۔

اسلام میں مالکی اور حنفی طبقۂ فکر کے مطابق آپ کو اجازت ہے کہ آپ سرِ عام حرابہ کے مرتکب افراد کو سزائے موت دیں یا ان کے سر قلم کردیں۔ سولی چڑھانے سے مراد یہ ہے کہ مجرم کے جسم کو لٹکا کر اسی حالت میں قتل کیا جائے جیسا کہ حنفی اور مالکی شریعت میں احکامات موجود ہیں جس سے معاشرے کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے زنا یا کوئی اور حرابہ سے متعلق جرم کیا تھا اور آپ کے ساتھ بھی یہ ہوسکتا ہے اگر آپ بھی ایسے ہی کسی جرم کے مرتکب ہوں۔ دیگر دو طبقاتِ فکر یعنی حنبلی اور شافعی کا عقیدہ کہتا ہے کہ پہلے مجرم کو قتل کیا جائے اور پھر اس کی لاش لٹکا دی جائے۔ اسلام ایسی سخت سزائیں جرائم کے مرتکب افراد کو خوف میں مبتلا کرکے جرم سے نفرت پر مجبور کرنے کیلئے دیتا ہے۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ زنا کا تعلق قرآن اور سنت کی کلاسیکی حدود کی سزاؤں سے نہیں ہے جس کیلئے 4 گواہوں کی ضرورت ہو۔

آج ہمارے معاشرے کیلئے وقت آگیا ہے کہ ہم زنا کی ایک مناسب سزا کا تعین کریں اور اس پر بحث و تمحیص کی جائے۔ اسلامی سزاؤں کے ساتھ ساتھ انسانی قوانین بھی موجود ہیں جن میں زنا کیلئے سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جرائم پر انصاف کیسے مہیا کیا جائے، کیا ہمارا یہ مقصد ہے کہ جرائم ختم ہوجائیں یا پھر ہم صرف جیلیں بھرنے پر یقین رکھتے ہیں؟

Related Posts