انتخابی نشان اور دیگر معمے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ریاستی ستون باہم برسرِ پیکار نظر آتے ہیں جہاں ایک جانب الیکشن کمیشن جیسا اہم ادارہ فیصلہ کرتا ہے کہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھین لینا چاہئے اور پشاور ہائیکورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔

دوسری جانب برسبیلِ تذکرہ ہی یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے تحت سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو آزادی کا پروانہ تو تھمایا گیا لیکن حسبِ سابق انہیں رختِ سفر باندھنے سے روک دیا گیا۔

شاہ محمود قریشی کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی اہم ترین عدالت نے جو فیصلہ سنایا، پولیس نے تھری ایم پی او کے تحت ملنے والے حکم کی پاسداری کرنا اس سے بہتر سمجھا، جو ایک اور معمہ ہے۔

پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن بھی کسی معمےسے کم نہ تھا جہاں چیئرمین سمیت دیگر اہم ترین عہدے دار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے اور اکبر ایس بابر کا اس پر اعتراض بالکل حق بجانب تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن مکمل طور پر جانبدارانہ نظر آئے۔

تاہم پی ٹی آئی سے انتخابی نشان عام انتخابات سے کم و بیش 1 ہی مہینہ قبل چھین لیا جانا بھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں جسے دانش مندانہ قرار دیا جاسکے اور اگر ہم گزشتہ ادوار کی بات کریں تو فیصلے سنانے کی اتنی تیز رفتار کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جو آج کل ہے۔

”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“کے مصداق ہر طرف سے مسلسل فیصلے آنے کے باعث بھی عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کے فیصلے بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں اور غالباً پولیس نے فیصلوں پر عملدرآمد کو اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ 

گزشتہ روز انٹرا پارٹی الکشن پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو موصول ہونے کی خبر سامنے آئی جس نے فیصلے پر اہم اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس  کیلئے وکلاء ونگ کو الیکشن کمیشن کو قانونی نکات کی تیاری کی ہدایت کی گئی۔

اگر ہم پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ دیکھیں تو اس کے متن میں کہا گیا کہ 8فروری کو عام انتخابات ہونے والے ہیں اور 13جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے، اس موقعے پر ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہیں۔

عدالتی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم بھی دیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کریں، تحریکِ انصاف کیلئے بلے کا نشان بحال کیا جائے۔ کیس کی آئندہ سماعت کیلئے 9 جنوری کی تاریخ مقرر کردی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا ہر سیاسی تجزیہ کار یہ بخوبی جانتا ہے کہ ہواؤں کا رخ کس جانب ہے، جو جماعت عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد الیکشن الیکشن کی گردان کر رہی تھی، اسے دیوار سے لگانا کون چاہتا ہے، یہ ہرکس وناکس کو معلوم ہے۔

اس کے باوجود پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنا کر ”کہانی میں ٹوئسٹ“ جیسی صورتحال پیدا کردی ہے جس سے ایک عام شخص تو شاید کچھ وقت کیلئے دھوکہ کھا جائے لیکن باشعور تجزیہ کار اور علم رکھنے والی شخصیات نہیں۔

الیکشن عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے 90 روز کے اندر اندر ہوسکتے تھے لیکن ایسا نہ کرنے کی وجہ مائنس ون فارمولا ہے یا کچھ اور، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، اور شاید تب تک کیلئے اداروں کی باہمی کشاکش اور چپقلشوں کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا۔

کسی بھی ملک کے اداروں کے مابین ایسی باہمی رسہ کشی بلاشبہ ابہام، خلفشار اور انتشار پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں بیک وقت مختلف سمتوں میں پیش قدمی اور پسپائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو پاکستان میں بھی کسی نہ کسی حد تک دیکھا جاسکتا ہے۔

Related Posts