پولیس کی قتل و غارت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان میں پولیس طاقت کے اندھا دھند استعمال، تشدد، ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں کیلئے بدنام ہے جن کا شکار ہونے والے معصوم شہریوں کو مجرم یا پھر دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔

تازہ ترین واقعے میں ایک نوجوان کو پولیس کے 5 اہلکاروں نے مار ڈالا جنہوں نے اسلام آباد میں اس کی کار پر متعدد فائر کیے۔

اسلام آباد میں یہ افسوسناک واقعہ رات کے وقت پیش آیا جب 22 سالہ نوجوان گھر جارہا تھا اور پولیس نے اس کی گاڑی چیک پوائنٹ پر روکی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک مشکوک گاڑی دیکھی جس کے ڈرائیور نے رکنے سے انکار کردیا تھا جس کے نتیجے میں پولیس کو گولی چلانی پڑی۔ بعد ازاں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پولیس اسے ڈاکو کی گاڑی سمجھ کر نشانہ بنا رہی تھی۔ پولیس نے اپنے افعال کا یہ دعویٰ کرکے دفاع کیا کہ انہوں نے گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے لیکن گاڑی کی حالت اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 17 بار گاڑی کو سامنے سے نشانہ بنایا گیا۔

اس طرح کے واقعات کی ہر زاویے سے بھرپور مذمت کی جانی چاہئے اگر یہ پارلیمان کے پلیٹ فارم تک جا پہنچیں۔ ایک سال قبل ہم نے ساہیوال میں بھی سی ٹی ڈی (محکمۂ انسدادِ دہشت گردی) کے ہاتھوں اسی طرح کا خوفناک قتل دیکھا جس کے دوران ایک بڑی موٹر وے پر 3 افراد کو براہِ راست فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا جن میں ایک خاتون اور ایک چھوٹی سی بچی شامل تھی۔ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا نہ ہی پولیس کے اس ظلم و بربریت کے ذمہ دار اہلکاروں کو کوئی سزا مل سکی۔

ملک کے فوجداری انصاف کے نظام میں پولیس کو اس طرح کے جرائم کرنے کا کھلا موقع مل جاتا ہے۔ صرف اندرونی تفتیش کی جاتی ہے، اہلکار معطل ہوجاتے ہیں اور پھر زیادہ تر لوگ اپنی ملازمتوں پر واپس آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسے متعدد واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے دوران پولیس مشکوک یا جرائم پیشہ افراد کے نام پر جعلی مقابلے کرکے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتی ہے جبکہ حکومت پولیس کی اصلاح میں ناکام ہوچکی ہے۔

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے اقتدار ملنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھا کہ پولیس کے نظام کو درست کیا جائے گا اور اس میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل روکنے کیلئے یہ واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ اگر ایسے کوئی جرائم ہوئے تو ان کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ معروف راؤ انوار اور اس کے ساتھی اہلکاروں کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے قتل کا کیس رہا جس نے کراچی میں جعلی مقابلے کے دوران ایک نوجوان کو مار ڈالا جسے آج تک انصاف نہیں مل سکا۔

ایسے جرائم کرنے والے اہلکاروں کو یہ واضح پیغام دینا بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنی قتل و غارت کے باوجود انصاف سے بچ نہیں سکتے۔ یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے مشاہدے میں ایسے کیسز آئے ہیں جن کے دوران جونیئر پولیس افسران کھلی قتل و غارت کا ارتکاب کرتے ہوئے عوام پر فائرنگ کردیتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت انصاف کے نظام کو مستحکم کرتے ہوئے ایسے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کرے جو طاقت کے اندھا دھند، بے جا اور ظالمانہ استعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 

Related Posts