شاعرِ مشرق اور بانئ پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی قوم اپنے آغاز کے حوالے سے بڑی خوش قسمت رہی کہ ہمیں شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صورت میں 2 عظیم  رہنما میسر آئے جن میں سے ایک عظیم رہنما کو ہم بابائے قوم اور دوسرے رہنما کو بابائے روحانیت و فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔

ایک عظیم رہنما قائدِ اعظم نے اس سیاسی تحریک کی رہنمائی کی جس نے دوسرے رہنما اقبال کے خواب کو تعبیر عطا کی۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی نہ ہونا برصغیر کے مسلمانوں کو وطن سے محروم اور پاکستان کے خواب کو چکنا چور کرسکتا تھا۔

علامہ اقبال نے قائدِ اعظم کو منا کر آل انڈیا مسلم لیگ کی رہنمائی کرنے پر آمادہ کیا جو وہ سیاسی جماعت ہے جس کا مسلمانوں کیلئے آزاد ریاست کے حصول میں اہم کردار رہا۔ علامہ اقبال نے سر آغا خان، مولانا حسرت موہانی، نواب محمد اسماعیل خان، مولانا شوکت علی اور دیگر میں سے محمد علی جناح کا انتخاب کیا جبکہ مذکورہ تمام رہنما میدانِ سیاست میں قائدِ اعظم سے زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔

قائدِ اعظم میں علامہ اقبال کو خضرِ راہ نظر آیا جو برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی دلا سکتا تھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک مصروف انسان ہیں لیکن مجھے یہ امید بھی ہے کہ میں آپ کو بار بار خط لکھا کروں کیونکہ آج ہندوستان میں آپ وہ واحد مسلمان ہیں جس پر مسلم معاشرہ یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اس طوفان کے خلاف ہماری محفوظ رہنمائی کریں جو شمال مغربی یا شاید مکمل ہندوستان کا رُخ کر چکا ہے۔

بے شک علامہ اقبال کی نظر میں قائدِ اعظم ہی مسلمانوں کو انگریز سامراج سے آزادی دلا سکتے تھے، اقبال نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو محمد علی جناح کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ انہیں مسلم لیگ کا ساتھ دینا ہوگا۔ وہ سوالات جو ہندو اور انگریز سامراج ہم سے پوچھتا ہے، اس کا جواب متحدہ مسلم محاذ دے سکتا ہے۔ اس کے بغیر ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوسکتے۔ ہم پر کمیونزم کا پرپیگنڈہ کیا جاتا ہے جبکہ آزادی کا مطالبہ ہمارے وجود کا دفاع ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کو متحد کرسکتی ہے اور جناح ہی اس کی قیادت کے اہل ہیں۔ محمد علی جناح کے سوا کوئی شخص مسلمانوں کی رہنمائی کے قابل نہیں۔

بانئ پاکستان کی نظر میں علامہ اقبال کی اہمیت شاعرِ مشرق کی وفات کے موقعے پر 21 اپریل 1938ء کے موقعے پر ان کے تعزیتی پیغام میں نظر آتی ہے جب قائدِ اعظم نے فرمایا کہ میرے لیے علامہ اقبال ایک دوست، ایک رہنما اور فلسفی تھے جو مسلم لیگ کے تاریک ترین سفر کے دوران ہمیں راستہ دکھاتے رہے۔ وہ ایک پختہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہ ہوئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 3 روز قبل کلکتہ میں پنجاب کی مسلم قیادت متحد ہوئی اور آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب کے مسلمان پورے جوش و جذبے کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کا جھنڈا تھام لیا ہے جس سے علامہ اقبال کو ضرور تسلی ہوئی ہوگی۔ اِس اتحاد کے حصول ہمیں علامہ اقبال کا کردار بے حد اہم رہا۔

بلاشبہ قائدِ اعظم نے علامہ اقبال کے برصغیر پاک و ہند میں علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کے نظریے کو بیان کیا جب انہوں نے فرمایا کہ علامہ اقبال کے خیالات میرے ساتھ کافی حد تک مطابقت رکھتے تھے اور بالآخر مجھے محتاط تجزئیے اور مطالعے کے نتیجے میں یہ علم ہوا کہ بھارتی مسلمان جن آئینی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، ان کا حل ایک الگ ریاست میں ہے جو لاہور میں قراردادِ پاکستان کے نام سے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی۔

قراردادِ پاکستان کے پیچھے علامہ اقبال کا نظریہ کارفرما تھا، کیونکہ قرارداد کی منظوری کے بعد قائدِ اعظم نے فرمایا کہ آج اقبال ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو انہیں یہ جان کر خوشی ہوتی کہ ہم نے بالکل وہی کیا جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔

برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ ریاست بنانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ قائدِ اعظم نے علامہ اقبال کی اسلام پر خدمات کو بھی تسلیم کیا، 31 مارچ 1941ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے کہا کہ اقبال کا پیغام دنیا کے دور دراز کونوں تک پہنچ چکا ہے جبکہ اقبال جدید دور میں اسلام کے سب سے بڑے ترجمان رہے۔

بعد ازاں 8 دسمبر 1944ء کو اپنے پیغام میں علامہ اقبال نے مسلمانوں پر اقبال کے اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اقبال صرف مبلغ اور فلسفی نہیں تھے بلکہ وہ ہمت و حوصلے، میدانِ عمل اور خدا پر ایمان کے علمبردار تھے۔ شاعر کی حیثیت سے فکر و فلسفہ اور حقائق پر ان کی گہری نظر تھی۔ انسانیت کو انہوں نے ہمیشہ عمل اور خودی کی پہچان کا درس دیا۔

سن 1926ء میں علامہ اقبال نے قائدِ اعظم میں اس خضرِ راہ کو تلاش کیا جس نے مسلم لیگ کے پرچم تلے برصغیر کے مسلمانوں کو منظم کرکے کانگریس اور برطانوی ڈیزائن دونوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی کیونکہ دونوں ہی مسلمانوں کو اقلیت بنانے کے درپے تھے۔

پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران میں 1979ء کے انقلاب کیلئے بھی اقبال کے فکر و فلسفے سے رہنمائی حاصل کی گئی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے 1986ء میں تہران میں پہلے اقبال سمٹ کے افتتاح کے موقعے پر کہا کہ قرآن اور اسلام کو تمام انقلابات کی بنیاد بنایا جانا چاہئے اور تحریکِ ایران بالکل اسی راستے پر گامزن رہی جو ہمیں اقبال نے دکھایا تھا۔ علی شریانی نے بھی اقبال کو ایسی شخصیت کے طور پر بیان کیا جو مسلم دنیا میں تجدید، بیداری اور طاقت کا پیغام لائے۔

حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کے فلسفے کی پیروی پاکستان کا وجود برقرار رکھنے کیلئے بے حد ضروری ہے، میری وزیرِ اعظم عمران خان سے بھرپور اپیل ہے کہ 9 نومبر کو یومِ اقبال کے دن عام تعطیل بحال کریں کیونکہ ہمیں اپنی موجودہ و آئندہ نسلوں کیلئے اقبال کی اہمیت، ملک کی نظریاتی بنیاد اور اسلامی فکر و فلسفے کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے وزیرِ اعظم کیلئے جان ایف کینیڈی کا یہ مقولہ بھی کار آمد ثابت ہوسکتا ہے کہ کسی بھی قوم کی شناخت نہ صرف اس کی پیدا کردہ شخصیات سے ہوتی ہے بلکہ ان افراد سے بھی جنہیں وہ اعزاز بخشے یا پھر یاد رکھے۔

انسان فانی ضرور ہے لیکن نظریات کبھی نہیں مرتے۔ 

Related Posts