پلان بی: کیا عمران خان کی گرفتاری کا وقت آ گیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان کی گرفتاری کے سوال پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے اس پورے بحران کا ایک مختصر جائزہ۔
بنیادی سوال ایک ہی ہے کہ کیا ملک جس بڑے سیاسی بحران میں ہے، اس کا کوئی حل نکلنا ممکن ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ اس کاحتمی جواب تو کسی کے پاس بھی نہیں۔
بظاہر الیکشن سے سیاسی عدم استحکام ایک حد تک تو ختم ہوسکتا ہے کہ جیتنے والی جماعت یا اتحاد کو عوا م کا فریش مینڈیٹ حاصل ہوگا اور یوں یہ بھی کلیئر ہوجائے گا کہ وہ اگلے پانچ برس یا کم از کم تین چار برس تک ایوان اقتدار میں موجود ہے۔
البتہ یہ امکان تو موجود ہے کہ کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکے اور ہنگ (معلق)پارلیمنٹ بن جائے، تب سیاسی کھینچا تانی جاری رہے گی اور جوڑتوڑ کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔
محسوس مگر یہ ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم یہ جان چکا ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو ہنگ پارلیمنٹ نہیں بنے گی اور عوام کا فیصلہ ان کے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں جائے گا۔ انہیں شائد یہ خطرہ ہے کہ فوری الیکشن کی صورت میں تحریک انصاف پنجاب اور کے پی سے ملنے والے ووٹ کی صورت میں دو تہائی نشستیں نہ جیت لے۔
پی ڈی ایم کا حتمی فیصلہ
اسی وجہ سے پی ڈی ایم نے یہ حتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کسی بھی صورت میں جلد نہیں کرانے۔ پارلیمنٹ کی مدت اگست کے وسط میں ختم ہوگی۔ آئین کی رو سے دو ماہ کے دوران الیکشن ہونے لازمی ہیں،یعنی اکتوبر کے وسط تک قومی اسمبلی کے الیکشن ہوجانے چاہئیں اور ممکنہ طور پر سندھ اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے بھی۔ سوال مگر یہ بھی کہ موجودہ منفی عوامی رائے اگلے چھ سات ماہ میں بھی کس طرح ختم ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے اور گندم کی ناکافی فصل کی صورت میں بہت مہنگا آٹا بھی عوام کو مشتعل کر دے گا۔
یہ سوال تو خیر پی ڈی ایم کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے مگر اس وقت انہیں زیادہ ٹینشن پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے الیکشن کی ہے جہاں اپریل کے وسط تک الیکشن کرانے آئینی اعتبار سے لازمی ہیں۔
عمران خان نے اسمبلیاں کیوں تحلیل کرائیں؟
عمران خان کے اسمبلیوں کے تحلیل کے فیصلے پربعض حلقوں نے سخت تنقید کی ہے کہ اس کے بعد انصافین لیڈروں کی پکڑ دھکڑ کے معاملات ہوئے اور ناقدین کے مطابق اگر پنجاب میں ان کی حکومت رہتی تو ایسا نہ ہوتا۔ عمران خان سے سینئر صحافیوں کی ایک ایکسکلیوسو میٹنگ میں یہ سوال پوچھا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس نے دانستہ ایسا کیا، کیونکہ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اہم ادارے کس حد تک غیر جانبدار ہیں اور الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہوگا؟ عمران خان کے مطابق اگر ہم چھ ماہ تک پنجاب حکومت چلائے رکھتے تو اگست میں اس نے بہرحال ختم ہو ہی جانا تھا اور اگر تب اچانک ہی حکومت پلس الیکشن کمیشن پلس طاقتور حلقوں کایکجا ہو کر مخالفانہ کردار سامنے آتا تو ہم کیا کر سکتے تھے ؟تب ہمارے پاس ریسپانس کرنے کا وقت ہی نہیں بچنا تھا۔
عمران خان کے مطابق جنوری میں اسمبلیوں کی تحلیل سے وہ سب کچھ ایکسپوز ہوگیا۔ یہ پتہ چل گیا کہ پی ڈی ایم حکومت کو کس کس کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی واضح جانبداری اور تعصبات بھی سامنے آ گئے۔ عمران خان کے مطابق یہ سب ان کے حق میں جائے گا کہ اس سے ان کا ووٹر زیادہ چارج ہوکر باہر آئے گا اور اپنے ووٹ کی طاقت سے ان سب کو ہرانے کی کوشش کرے گا۔ دیکھیں خان صاحب کی یہ سوچ کس حد تک درست نکلتی ہے؟
پہلے دو راﺅنڈ
خیر صوبائی اسمبلیوں کی جنگ میں پہلا راﺅنڈ پی ٹی آئی نے جیتاکہ اسمبلیاں ٹوٹ گئیں ۔دوسرا راﺅنڈ پی ڈی ایم کے حصے میں آیا۔ اس کا ”کریڈٹ“ یا ڈس کریڈٹ الیکشن کمیشن کو جاتا ہے جس نے کھل کر حکومت کا ساتھ دیا۔ الیکشن کمیشن کی وجہ سے انہوں نے پنجاب میں اپنی مرضی کا فرینڈلی نگران وزیراعلیٰ بنوا لیا۔ کے پی میں اگر چہ اتفاق رائے سے نگران وزیراعلیٰ مقرر ہوا، مگر لگتا ہے پرویز خٹک اس بارے میں دھوکا کھا گئے۔دانستہ یا نادانستہ۔
وہاں توایک عجیب وغریب کام یہ ہوا کہ صوبائی نگران کابینہ میں باقاعدہ اے این پی، جے یوآئی، ن لیگ اور پی پی سے تعلق رکھنے والے وزرا شامل ہیں۔ جب سے اٹھارویں ترمیم کے بعد نگران حکومتیں بننا شروع ہوئی ہیں، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ واضح سیاسی وابستگی والے حکومتی اتحاد کے لوگ صوبائی کابینہ میں ہیں ۔اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس سب کچھ کے باوجود اسمبلیوں کی تحلیل اور نوے دن کے اندرالیکشن کرانے کی آئینی قدغن پی ڈی ایم حکومت کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن ان کے ساتھ ہے، ممکنہ طور پر بعض دیگر طاقتور حلقے بھی، مگر اس کے باوجود آئینی پابندی کا کوئی مناسب” توڑ“ نکل نہیں رہا۔پی ڈی ایم حکومت کو خدشہ ہے کہ عدلیہ مداخلت کر کے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرا سکتی ہے۔
کھلا تضاد
ویسے اس حوالے سے وفاقی حکومت، نگران صوبائی حکومتوں ، گورنر حضرات اور الیکشن کمیشن کا موقف عجیب وغریب تضادات سے پر ہے، منطق تو اسے چھو کر نہیں گزری۔ نگران صوبائی حکومت جسے الیکشن کرانے کے لئے ہی لایا جاتا ہے، وہ تو یوں اپنے بنیادی فرض سے لاتعلق ہے جیسے یہ ان کا کام ہی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نگران وزرا اعلیٰ کو سب سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی ہوتی، وہ گورنر کو خود ملتے اور کہتے کہ الیکشن ڈیٹ کا اعلان کرو تاکہ ہم الیکشن کرائیں اور پھر واپس جائیں۔ اس کے بجائے نگران وزیراعلیٰ اور کابینہ مزے سے دیگر کام کاج نمٹا رہے ہیں، گویا انہیں پانچ سال حکومت کرنا ہو۔
الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کا ادارہ بنایا ہی صرف الیکشن کے لئے جاتا ہے، ٹیکس دینے والے عوام کے اربوں روپے اس ادارے پر خرچ ہوتے ہیں۔صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہوتے ہی الیکشن کمیشن کو فوری الیکشن کی تاریخ دینی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے وہ خواہ مخواہ کی بیکار مشاورتوں میں وقت ضائع کرا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے انہیں وقت پر الیکشن کرانے کی ہدایت کی تو اسے بھی نظرانداز کر دیا گیا۔
رہے گورنرحضرات تو ان کی دلیل مزید عجیب ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل انہوں نے نہیں کی، اس لئے تاریخ وہ نہیں دے سکتے۔
گورنرپنجاب، کے پی
گورنر پنجاب اور گورنر کے پی سے سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا اس کام کے لئے مریخ سے کوئی آئے گا یا چاند سے چرخہ کاتنے والی بڑھیا کو زمین پر آنے کی زحمت دی جائے؟گورنر نے اس لئے اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط نہیں کئے کہ اس کی حاجت ہی نہیں تھی، آئین کے تحت وزیراعلیٰ جب اسمبلی تحلیل کر دے تو گورنر بے شک دستخط کرے یا نہ کرے اسمبلی ختم ہوجائے گی۔ ویسا ہی ہوا۔ الیکشن تو مگر کرانے ہیں، گورنر ڈیٹ دے یا الیکشن کمیشن یا نگران وزیراعلیٰ ، کوئی بھی یہ کرے مگر یہ کام انہیں چاہے پسند ہو یا نہ ہو، کرنا ہی پڑے گا۔
صدر کی جانب سے الیکشن کی ڈیٹ
تحریک انصاف نے ایک دلچسپ کارڈ صدر مملکت کی جانب سے ازخود صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی ڈیٹ دے دینا ہے۔ صدر نے پہلے تو الیکشن کمیشن کو مشاور ت کے لئے ایوان صدر بلایا، جب چیف الیکشن کمشنر نے ٹکا سا جواب دے دیا تو صدر نے ازخود نو اپریل کو الیکشن ڈیٹ کا اعلان کر دیا۔
اس پر شوربپا ہے۔ پی ڈی ایم کے چھ ماہ سے سوئے ہوئے لیڈر بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جو علالت کا عذر کر کے خاموشی سے منظر سے ہٹے تھے، انہوں نے بھی صدر کے خلاف بیان داغ دیا۔ ادھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنما بھی جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ قانون دانوں سے آرا طلب کی جا رہی ہیں۔ کسی کے خیال میں صدر نے غیر آئینی کام کیا تو سلمان اکرم راجہ جیسے قانون دان اس فیصلہ کو درست قرار دے رہے ہیں۔ ادھر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر سپریم کورٹ چلے گئے ہیں۔
آخری حل کہاں ؟
لگ یہی رہا ہے کہ فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔
بعض حلقے البتہ یہ کہہ رہے ہیں کہ صدر مملکت نے ایک حل پیش تو کیا ہے، آئین کی ایک تعبیر کے ذریعے ہی سہی، ڈیڈ لاک تو ختم ہوا ۔ اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو بحران کا حل نکل سکتا ہے۔
پی ڈی ایم مگر اس موڈ میں ہرگز نہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ وہ ہر قیمت پر، ہر حال میں یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ الیکشن نہیں کرانے ۔ یہ اس لئے نہایت افسوسناک ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن اور ووٹروں سے طاقت حاصل کرتی ہیں، عوام کا مینڈیٹ ان کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو بھی سیاسی جماعت الیکشن سے بھاگے گی ، اس کے لئے سیاست میں جگہ کم ہوتی جائے گی۔

 پلان بی
دیکھنا اب یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں کیا فیصلہ دیتی ہیں اور مجبوری کے عالم میں الیکشن کرانا پڑا تو کیا پی ڈی ایم عمران خان کو گرفتار کر کے پلان بی پر عمل کرے گی ؟سوال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے بعض ساتھی نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے تو تحریک انصاف کا ردعمل کیا ہوگا؟
چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا اس موقعہ پر استعفا بڑا معنی خیز ہے،ان پر کیا ایسا دباﺅ تھا کہ انہیں اچانک جانا پڑا؟
اس استعفے کے فوری بعد عمران خان ، بشری بی بی اور دیگر کی نیب میں طلبی بھی دلچسپ اور اہم ہے ؟
یوں لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت پلان بی پر ہر حال میں عمل کرنا چاہتی ہے۔ یعنی عمران خان کی گرفتاری اوران کے اندر ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے مورال کو ڈاﺅن کرنا۔
سوال پھر وہی کہ عمران خان کی گرفتاری پر ان کے کارکن کیا ری ایکٹ کریں گے ؟
لگتا ہے اس کے جواب کے لئے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

Related Posts