گلابی اکتوبر اور چھاتی کا مسئلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لفظ چھاتی کو تحریر کرتے وقت یہ احساس میرے ذہن میں رہا کہ ہم کوئی اجنبیت یا شرم محسوس کیے بغیر انسانی جسم کے ایک عضو کے بارے میں بات کرنا سیکھیں اور غالباً یہی اس کا درست وقت ہے۔

مردوں کی نگاہیں سینے کے عضو کو جنسی خوشنودی سے منسلک کردیتی ہیں جس سے بچنے کیلئے خاتون کے جسم کا ایک حصہ گویا ممنوع قرار پاتا ہے، خواتین اپنے جسم کے اس حصے کے بارے میں جب بھی کوئی بات کرتی ہیں یا اس کا نام بھی لیتی ہیں تو اسے فوری طور پر فحش اور غیر اخلاقی قرار دے کر ایک روایتی خاموشی اختیار کی جاتی ہے جس کی قیمت خواتین کو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے سے دینی پڑتی ہے جس سے شرحِ اموات میں اضافہ جاری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بھر میں ہر 6 اموات میں سے 1 موت چھاتی کے کینسر کے باعث ہوتی ہے جو دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے بعد موت کی تیسری اہم وجہ بن چکی ہے۔ آج کل بین الاقوامی سطح پر خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص 30 فیصد سے زائد کیسز میں ہوجایا کرتی ہے جبکہ ہمارے پاس ایسی کوئی رجسٹری موجود نہیں، لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی کی چھاتی کے سرطان کی سرجن ڈاکٹر روفینہ سومرو کے مطابق پاکستان میں ہر 9 میں سے کم از کم 1 خاتون چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہے۔

پنک ربن سوسائٹی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر سال 40 ہزار سے زائد چھاتی کے کینسر کے مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تاہم یہ بات بر وقت پتہ چل جائے کہ کسی خاتون کو کینسر ہے تو اسے بچا لیے جانے کا 90 فیصد امکان موجود ہوتا ہے۔ آگہی اور شعور کی کمی کے باعث چھاتی کے کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص نہیں کی جاتی اور گزشتہ 3 دہائیوں سے زائد عرصے سے اکتوبر کے مہینے میں اسی مسئلے پر کام جاری ہے۔

ہر سال کینسر سے متعلق آگہی کے مہینے کے طور پر اکتوبر کا مہینہ عوام میں زیادہ اہمیت اور مقبولیت کا حامل بن رہا ہے جسے پنکٹوبر یا گلابی اکتوبر بھی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر کو امریکی کینسر سوسائٹی اور دوا سازی کی کمنپی آسٹرا زینیکا نے 1985ء میں گلابی ربن کے ذریعے چھاتی کے کینسر سے آگہی بڑھانے کا مہینہ نامزد کیا اور پاکستان نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔

رواں برس ایک بار پھر ٹی وی پر حالاتِ حاضرہ کے میزبانوں اور سیاستدانوں نے گلابی ربن کی روایت قائم کی، لاہور کے قذافی اسٹیڈیم پہنچنے والے شائقین کو گلابی رنگ پہنانے کی ترغیب دی گئی۔ ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس، پارلیمان، سپریم کورٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی عمارات گلابی رنگ سے روشن رہیں۔ آسمان کے گلابی ہو جانے کے باوجود جو پیغام عوام تک پہنچانا تھا، وہ ابر آلود ہی رہا۔

بلاشبہ چھاتی کے کینسر کے حوالے سے گلابی ربن کی مقبولیت یقینی طور پر درست سمت میں اہم قدم قرار دیا جاسکتا ہے ، تاہم یہ بات نامکمل بھی ہے اگرچہ ہم اشتہارات اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے بیماری کا درست تصور پاکستان میں پیش ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن اخلاقیات بریگیڈ کے کہنے پر خواتین  چھاتی کے کینسر کے حوالے سے خود تشخیصی عمل سے نہیں گزرتیں جو ضروری ہے اور جس کے دوران خواتین کے جسم کے ایسے حصے پر تفصیلی گفتگو ہوگی ہے جسے جنسی تسکین کا آلہ سمجھ لیا گیا ہے۔

کینسر کے بارے میں صرف جان لینا ہی کافی نہیں ہے جب تک آپ علامات کو حقیقی طور پر سمجھ نہ پائیں جس میں سے کچھ اہم علامات میں چھاتی کے سائز یا صورت میں کوئی گانٹھ، چھاتی کے کسی بھی حصے میں درد، ماں کے دودھ کے علاوہ چھاتی سے کسی اور مواد کا نکلنا (جس میں خون بھی شامل ہے)، جس پر گفتگو بے حد ضروری ہے۔ اگر خواتین صرف چھاتی سے نکلنے والے مواد پر ہی بات کر لیں تو اسے بے حیائی کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ آج بھی چھاتی کے کینسر سے متعلق گفتگو پاکستان کے متعدد معاشرتی مراکز میں اضطراب پیدا کرتی ہے کیونکہ خواتین کے جسم کا یہ حصہ مردانہ نگاہوں میں جنسی تسکین کے آلے کے سوا کوئی اور مطلب نہیں رکھتا۔

گلابی اکتوبر کے اختتام کے بعد گلابی ربن اتار دئیے گئے، اور آئندہ برس تک یہ معاملہ مختلف کونے کھدروں میں پڑا رہے گا اور اس پر کوئی گفتگو نہیں ہوگی۔ بے شک بہت کچھ حاصل ہوا لیکن چھاتی کے کینسر سے آگہی پر بہت سا کام باقی ہے۔ چھاتی کے کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز کا مؤثر مقابلہ کرنے کیلئے چھاتی کو جنسیت سے دیکھنے والوں کا نقطۂ نظر بدلنا ضروری ہے۔ خواتین کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ چھاتی میں درد یا تبدیلی کے بارے میں کھل کر بات کرسکیں۔ کسی کو سر کی چوٹ یا دل کی بیماری ہو تو وہ بھی اس پر گفتگو کر تا ہے جس کا مقصد جان بچانا ہوتا ہے، حکومت کو چاہئے کہ چھاتی کے کینسر پر آگہی کی مہم کو نیم دلی سے جاری رکھنے کی بجائے اگر ایسے کوئی ثقافتی اصول موجود ہیں جو خواتین کو اپنی جان بچانے کیلئے گفتگو سے روکتے ہوں، تو ان کا تدارک کیا جائے تاکہ آگہی کا یہ مہینہ عوام کیلئے زیادہ قابلِ قبول ثابت ہوسکے اور کینسر سے ہر سال موت کے منہ میں جانے والی خواتین کو بچایا بھی جاسکے۔ 

 

Related Posts