بچوں سے زیادتی کا المیہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بچوں کے خلاف تشدد کی مختلف شکلیں بشمول جسمانی، جنسی، جذباتی اور نفسیاتی استحصال، ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔

بچوں پر تشدد کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کے باوجود المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی ایک سماجی مسئلہ کے طور پر تا حال غیر تسلیم شدہ ہے، یعنی تاحال اسے اب تک ایک مسئلے کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا، جبکہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان بچوں کے جنسی استحصال میں عالمی سطح پر سرفہرست ممالک میں شامل ہے، جہاں سالانہ تقریباً 550000 بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی او ساحل کی حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ‘کروئل نمبرز 2023’ ہے، پاکستانی بچوں کو درپیش سنگین صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، رپورٹ میں معاشرے کے اس کمزور حصے کے تحفظ کے لیے انتظامی تبدیلیوں کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ایک پریشان کن حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے، جو یہ شرمناک انکشاف ہے کہ روزانہ اوسطاً 11 بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ اعداد وشمار بھی حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے، کیونکہ بہت سے واقعات بدنامی، خوف، یا شعور کی کمی کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ بیشتر واقعات میں بچوں کو ان جگہوں پر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرنا چاہیے، ایسے مقامات میں متاثرہ بچوں کے اپنے گھر، محلے اور اسکول شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ بچوں کو مزدوری کے دوران بھی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسا کہ ایک 12 سالہ گھریلو ملازم بچے کے کیس سے ظاہر ہوتا ہے جسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ تقریباً 34 سال قبل اقوام متحدہ کے حقوق اطفال کے کنونشن کی توثیق کرنے کے باوجود پاکستان میں اب بھی بچوں کے تحفظ کا کوئی جامع طریقہ کار موجود نہیں ہے جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق کار گزار اور فعال ہو اور بچوں کو تحفظ فراہم کرسکے۔

یہ اعدادوشمار بچوں کے تحفظ کے مضبوط اقدامات، متاثرین کے لیے بہتر سپورٹ سسٹم، اور اس مسئلے کے حوالے سے معنی خیز خاموشی کو توڑنے کیلئے کام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنے کی خاطر حکومت، این جی اوز اور کمیونٹیز کے درمیان تعاون ضروری ہے۔

Related Posts