پاکستان کٹھن موڑ پر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے کئی ہفتوں سے پاکستان کی مخدوش معیشت ہر شخص کی زبان پر ہے اور معاشرے کے تمام حلقے اس بات سے پریشان ہیں کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی قوم یا ملک میں رہنے والے افراد اپنی گردن شتر مرغ کی طرح ریت میں دبائیں اور یہ محسوس کریں کہ آنے والے دن خوشگوار گزریں گے اور ان کے راستے میں کوئی کٹھن مرحلہ نہیں آئے گا تو یہ کسی بے وقوفی سے کم نہیں سمجھا جائے گا۔

صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ بیرونی اور اندرونی قرضے ملا کر تقریباً 63کھرب روپے کاقرض سر پر ہے۔ سی پورٹ پر تقریباً ساڑھے 5 ہزار کنٹینرز مختلف اشیائے خوردونوش، ادویات اور زندگی کی ضروریات کی مختلف چیزوں سے لدے ہیں اور بینک ان کیلئے ایل سی تک نہیں کھول رہے جس کے نتیجے میں ایک خوفناک خبر آج پہنچی۔

خبر یہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں خدشہ ہے کہ شپنگ کمپنیاں پاکستان آنا بند کردیں گی۔ گو کہ اس کا تعلق ان کی پاکستان میں آمدن کو اپنے ملکوں میں بھیجنے سے ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شپنگ کمپنیز یہاں اپنے جہاز بھیجتی ہیں، انہیں پاکستانی روپوں میں جو ادائیگیاں ہوتی ہیں، اسے بھی یہ کمپنیاں ڈالرز میں کنورٹ کرا کر اپنے اپنے ہیڈ کوارٹرز میں بھیجا کرتی ہیں۔

چونکہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے اس عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں اور یہ کمپنیاں اپنے اپنے ہیڈ کوارٹرز تک اپنے آمدن کے پیسے بھیجنے سے قاصر ہیں اور اسٹیٹ بینک کے ذمے کروڑوں ڈالرز کا بوجھ ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے پاس 4 اعشاریہ 2 ارب ڈالرز کے زرِ مبادلہ ذخائر اس ضمن میں بالکل ناکافی ہیں کہ ایسی تمام ادائیگیوں کو پوراکیا جاسکے۔ اسٹیٹ بینک میں زرِ مبادلہ صرف 3 ہفتوں کی امپورٹ کیلئے بھی ناکافی ہیں۔

ایسی صورتحال میں جو خطرناک منظر نامہ ہمارے سامنے ہے، میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تاہم اگر میں یہ ذکر نہ کروں تووہ میری تحریر سے اور معاشرے کے افرادکو جو معلومات ہونی چاہئے، اس سے انصاف نہیں ہوگا۔
اگر اشیائے ضروریہ کی درآمدات رک جائیں، جیسا کہ ہم پیٹرولیم مصنوعات، گندم، ٹماٹر اور اشیائے ضروریہ تک درآمد کر رہے ہیں۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کو ہی لے لیں تو اس کی وجہ سے پانی کی جو پمپنگ واٹر اینڈ سیوریج کی طرف سے ہوتی ہے، وہ پمپنگ رک سکتی ہے۔ بجلی کی پیداوار جو ہم پیٹرولیم کی مدد سے کرتے ہیں، وہ بھی بند ہوسکتی ہے جس سے توانائی کا نیا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

اسی طرح ٹرانسپورٹ کا چلنا دشوار ہوسکتا ہے۔ پانی اور بجلی کی سپلائی نہ صرف خلل کا شکار بلکہ بند ہوسکتی ہے۔ صرف کراچی کی ہی بات کریں تو ایک تخمینے کے مطابق اس شہر کی آبادی 3 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اگر یہاں ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو ایک بھونچال مچ جائے گا۔ لوگ نہ اپنے گھروں میں رہ سکیں گے نہ ہی بنیادی سہولیات استعمال کرسکیں گے۔

بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث عوام دفاتر میں پہنچ کر فرائضِ منصبی سرانجام نہیں دے سکیں گے جس کی وجہ سے ان کی نوکریاں ختم ہونا اور گھروں میں فاقے شروع ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ بھیانک منظر نامہ ہے جس کی صورت میں لوگ سڑکوں پر نکل کر یا تو ماریں گے یا مر جائیں گے والے دور میں داخل ہوسکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ حکومتِ وقت اگر کچھ انقلابی فیصلے کرے تو ایسی صورتحال سے نمٹا جاسکتا ہے۔

بہت سے ممالک ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہوچکے ہیں اور ہم بھی ان حالات سے باہر آسکتے ہیں۔ ہمارے لیڈران کو چاہئے کہ فی الفور غور کریں کہ  اگلے ہفتے یا اگلے مہینے تک ہم 6 سے 8 ارب ڈالرز کس طرح اپنے ہی ہم وطنوں کو مختلف سہولیات دے کر اور سمندر پار پاکستانیوں کیلئے آسانیاں پیدا کرکے کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔

1۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کاکام برآمدات کو فروغ دینا ہے۔ فروغ دینا تو موجودہ دور میں کیا خاک ہوگا؟ تاہم مختلف ممالک میں سنگل کنٹری نمائش لگا کر اور اپنے کنٹینرز لے جا کر مختلف ممالک میں فروخت کریں تاکہ ہمارے پاس جو چھوٹی موٹی مصنوعات ہیں ان سے زرِ مبادلہ حاصل کیا جاسکے۔ خاص طور پر افریقی ممالک میں کنٹینرز لے جا کر یہ تجارتی سرگرمی کی جائے تو وہاں سے لاکھوں ڈالرز روزانہ کے حساب سے آمدن ہوسکتی ہے جو قومی خزانے کو بڑھائے گی۔

اس کیلئے کپڑے، ادویات، کھلونے، خوراک، خیمے، بسکٹس، چاکلیٹ اور دیگر مصنوعات فروخت کی جاسکتی ہیں جو وہاں کے مقامی لوگوں کی اشد ضروریات میں شامل ہے۔ سنگل کنٹری نمائش کیلئے پیسہ خرچ کیے بغیر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس کیلئے اپنے سفارت خانوں کے احاطوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے چھوٹے تاجر بھی بہت خوش ہوں گے کہ وہ اپنی مصنوعات براہِ راست بیچ کر ڈالرز کما سکیں گے۔

2۔ وطنِ عزیز سے محبت رکھنے والے پاکستانی پوری دنیا میں موجود ہیں جن کی تعداد 1 کروڑ ہے جن کیلئے سہولیات پیدا کی جانی چاہئیں تاکہ وہ اپنی فیملی کو ڈالرز کی صورت میں رقوم بھیجیں۔ وہ ڈالرز ہمارے زرِ مبادلہ ذخائر کو بڑھاوا دیں گے۔ اس کیلئے ڈالرز پاکستان میں قانونی طریقے سے بھیجنے والوں کی پذیرائی کرنا ہوگی۔

سفارت خانے ایسے سمندر پار پاکستانیوں کو سرٹیفکیٹ اور اسناد سے نوازیں جو پاکستان میں قانونی طریقے سے رقوم روانہ کرتے ہیں۔ اگر پیریٹی لون 10 سے 20 فیصد دینا ہو تو حکومت وہ بھی دے سکتی ہے جس سے حکومت کو بھی منافع حاصل ہوگا۔ منافع روپے میں بھی دیا جاسکتا ہے جس سے اوور سیز پاکستانیوں کی دلچسپی کا سامان مہیا ہوگا۔

3۔ ہمارے پاس بنجر زمینیں وافر مقدار میں موجود ہیں جنہیں تارکینِ وطن سرکاری نرخوں پر خریدنا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی  2 سے 3 ہفتوں میں 1 ارب ڈالر بکنگ کی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر بشمول ملک ریاض وغیرہ کو بھی آگے آنا ہوگا اور تارکینِ وطن جو گلف کنٹریز میں ہیں، مختلف علاقوں کی پہچان کرکے انہیں کم قیمت پرحاصل کرکے اسکیمیں دی جائیں جو صرف فارن ایکسچینج میں بک ہوں۔

آئندہ دنوں میں اور بھی ایسے بہت سے مواقع کا استعمال کرکے ہم اربوں ڈالرز کماسکتے ہیں۔

اگر حکومت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور پوری قوم کو سیاست کے الٹ پھیر میں الجھائے رکھا تو اشرافیہ اور ایلیٹ سیاستدان تو جہاز کا ٹکٹ لے کر نکل جائیں گے تاہم ملک میں وہ بھونچال آسکتا ہے جو کسی کے بھی سنبھالے سے نہ سنبھلے گا۔ اس وقت کے آجانے سے قبل ملک کے مقتدر طبقے کو ہوش میں آنا ہوگا۔ یہاں ایسے قیمتی اذہان ہیں جو ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے میں دلچسپی لیتے ہوئے تمام تر معاملات کو قلیل مدت میں سنبھالا دے سکتے ہیں تاکہ اس کے بعد درمیانی مدت اور طویل مدتی سرمایہ کاری اور زرِ مبادلہ ذخائرکو مزید بڑھایا جاسکے تاہم فی الوقت سانس لینے کیلئے مندرجہ بالا چھوٹے چھوٹے اقدامات ازحد ضروری ہیں۔

Related Posts