فلسطین تنازعہ اور اسرائیل سے تعلقات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

خلیجی عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد سے مسلم ممالک کے ذریعہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نظریات تبدیل ہورہے ہیں تاہم یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کون سا ملک یہودی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں آگے ہوگا اور کیا یہ پاکستان ہوسکتا ہے؟۔

اسرائیلی میڈیا اور کئی اسرائیل نواز لابیوں نے اطلاع دی ہے کہ ایک اور مسلم اکثریتی ملک جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتا ہے اور یہاں تک کہ ایک وفد تل ابیب کا بھی دورہ کرچکا ہے۔

شدید قیاس آرائیوں کے دوران ایک اسرائیلی وزیر نے اس سے انکار کیا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے جس کے ساتھ اسرائیل تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم اس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ماضی میں دونوں ممالک کے مابین باہمی روابط موجود ہیں۔

یہ اطلاعات تو تھیں کہ پاکستان نے ماضی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے امکانات پر غور کیا تھا جب جنرل مشرف نے 2005 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون سے ملاقات کی تھی۔

اس سے کچھ ہی ماہ قبل وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔ تین سال بعد پرویز مشرف نے پیرس میں اسرائیلی وزیر دفاع ایہود ابارک سے غیر رسمی ملاقات کی۔ آخر کار پرویز مشرف کو معزول کردیا گیا اور معاملہ پس پشت چلاگیا۔

جب سے چار مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تب سے یہ مسئلہ پھر سے زندہ ہوگیا ہے اور اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہاں تک کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم اپنے دوسرے دور میں اسرائیل میں ایک وفد بھیجا تھا۔

وفدکی سربراہی جے یو آئی کے سابق رہنما کر رہے تھے جنھوں نے اسرائیل کے دورے کی تصدیق کی تھی اور حتیٰ کہ اسرائیلی دفتر خارجہ کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی تھی اور یہ کہ نواز شریف تعلقات استوار کرنے کے خواہاں تھے۔

تحریک انصاف بھی اس تنازعہ میں الجھی ہوئی ہے کیونکہ یہ انکشاف ہوا ہے کہ نومبر میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر تل ابیب تشریف لائے تھے۔ اگرچہ نام نہیں لیا گیا تھا لیکن بہت سے لوگوں کو شبہ ہے کہ یہ زلفی بخاری ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کا برطانوی پاسپورٹ ہے اور وہ لندن سے تشریف لائے ہیں۔

انہوں نے ایسے کسی دورے کی تردید کی ہے اور پی ٹی آئی نے اسے سازش قرار دیا ہے تاہم اس طرح کے امکان پر بحث پیدا کرنے کے لئے یہ سب ایک چال ہوسکتی ہے۔

جب تک فلسطین تنازعہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر غور کرنے کی سختی سے تردید کی ہے۔

حکومت ، مسلح افواج اور پوری قوم متفق ہے کہ عالمی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود پاکستان اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔

اس طرح کے فیصلے کا مشرق وسطیٰ کے برعکس سخت عوامی ردعمل ہوگا جہاں آمرانہ حکومتیں پالیسی فیصلے کرتی ہیں۔ پاکستان اس وقت تک نتائج کا متحمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ دو ریاستی حل پر اتفاق نہ ہوجائے۔

Related Posts