نئی بوتل میں پرانی شراب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں اس وقت جو سیاسی منظرنامہ تشکیل پا چکا ہے، اسے نئی بوتل میں پرانی شراب ہی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ پی ڈی ایم اتحاد نے ایک بار پھر وفاقی حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے شہباز شریف 24ویں وزیر اعظم کے طور پر ایک بار پھر منتخب ہوگئے ہیں۔ یہ پیشرفت فروری میں ہونے والے ہنگامہ خیز اور متنازع عام انتخابات کے بعد سامنے آئی ہے، جس کے نتیجے میں ملک و قوم کے ہاتھ معلق پارلیمنٹ اور شدید سیاسی بحران کا “تحفہ” آیا ہے۔
خاصے متنازع پس ماحول میں مسلم لیگ ن، پی پی پی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے جیسے تیسے اقتدار کی ذمے داریاں ہنسی خوشی اٹھا تو لی ہیں، مگر اس اتحاد کیلئے ان ذمے داریوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا کوئی کھیل نہیں ہوگا، اس ضمن میں بہت ہی سنجیدہ اور مشکل چیلنجز سر اٹھائے کھڑےہیں۔

تحریک انصاف انتخابی عمل پر اعتراضات کے ساتھ تا حال نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور مسلسل احتجاج کر رہی ہے۔ ان حالات میں نہیں لگتا کہ حکومت بڑھتے ہوئے قرضوں، مالیاتی خسارے اور افراط زر سمیت سنگین ہوتے معاشی بحران کو قابو کرنے میں کامیاب ہو پائے گی۔
حکومت کو اب پہلی فرصت میں آئی ایم ایف کے در پر بیل آؤٹ پیکج کے حصول کیلئے دستک دینے کا چیلنج درپیش ہے، جبکہ آئی ایم ایف پہلے ہی ٹیکسوں میں مزید دوچند اضافہ، نجکاری اور کرنسی کی قدر میں کمی جیسی سخت شرائط کے ساتھ آنکھیں دکھا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ سخت شرائط سنگین ہوتے سیاسی بحران کی اس فضا میں حکومت کیسے پوری کر سکے گی؟
ان مشکل ترین حالات میں مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت حکمران اتحاد پر ملک کے استحکام اور اس کی ساکھ کو بحال کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت کو آزاد معاشی پالیسیاں وضع کرنے کی اجازت ہوگی، یا وہ سابقہ نگراں ماڈل کی محض توسیع کے طور پر کام کرے گی؟ یہ آنے والا وقت جلد بتائے گا۔

Related Posts