مرد حضرات اور علماء خاموش کیوں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور موٹروے پر خاتون سے جنسی زیادتی کے واقعہ نے پورے ملک میں لرزہ طاری کردیا ہے لیکن اس شرمناک واقعہ پر ایک افسوسناک امر یہ ہے کہ اس جنسی درندگی پر صرف خواتین احتجاج کررہی ہیں اور ہمیشہ کی طرح مردوں کی طرف سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

لاہور کی متاثرہ خاتون کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کئے گئے مظاہرے میں ایک پوسٹر کی یہ تحریر کہ ’’میں ایسے لڑکے کی پرورش کررہی ہوں جس کے ساتھ آپ کی بیٹی محفوظ ہوگی‘‘۔ ایک سبق ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش سے معاشرے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

سی سی پی او لاہور کی طرف سے متاثرہ خاتون کے رات کے وقت محرم کے بغیر موٹر وے پر سفر کرنے کے حوالے سے نامناسب بیان کے بعد ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں کیونکہ خواتین کو بھی مردوں کی طرح اپنی مرضی سے کہیں بھی اور کسی بھی جگہ آنے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

متاثرہ خاتون کو مورد الزام ٹھہرانے کی روایت نے بھی خواتین کو آواز بلند کرنے پر مجبور کردیا ہے اورمخالف جنس کی خاموشی بھی خواتین کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔

ہمارے معاشرتی اصولوں کے مطابق ایک عورت کو اپنے بچوں کی مناسب پرورش کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے ،ایک ماں اپنے بیٹے کو روزانہ خواتین کی عزت کرنے کا درس تودے سکتی ہے لیکن جب تک کہ گھر میں ایک اچھا ماحول نہ ہو وہ ماں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ جب ہر روز وہی چھوٹا بچہ خواتین کے ساتھ بد سلوکی ، بے وفائی اور جبر دیکھتا ہے تو وہ بھی اپنے والد کے طرز عمل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے،صرف خواتین دنیا کو محفوظ مقام بنانے کی ذمہ دار نہیں ہوسکتیں جب تک مرد اس میں مکمل طور پر شراکت دار نہیں بنتا ۔

کوئی بھی شخص جو موٹر وے گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے کہ پیٹرول کیوں نہیں بھروایا یا اکیلے سفر کیوں کررہی تھی؟ وہ نظریاتی طور پراس جنسی زیادتی کے واقعہ کی حمایت کرتا ہے اور اس واقعہ پر خاموش رہنے والا انسان عصمت دری میں شریک جرم ہے کیونکہ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو چار دیواری کے اندر قید رہنا چاہیے۔

ایک سماجی تنظیم کی جانب سے رواں سال مئی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں 200 فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مردوں کی خاموشی نے اس تعداد میں کتنا حصہ ڈالا ہے؟ ۔

سانحہ موٹر وے کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ خواتین کو مردوں کے بغیر باہر نہیں نکلنا چاہیے یا خواتین کی نقل و حرکت محدود کرنے پر بات ہورہی ہے لیکن اس کے برعکس اس زیادتی اور مجرمانہ ذہنیت کے خلاف کوئی بات نہیں ہورہی جس کا خمیازہ خواتین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اس وقت مردوں کو بھی گھر میں ، کام کے مقام پر ، پارکوں اور خاص طور پر مساجد میں خواتین، بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی رہنماء خاص اثر رکھتے ہیں اور شیعہ مخالف مارچ میں زمین آسمان ایک کرنے والے علماء کی موٹر وے واقعہ کی مذمت کرنے میں ناکامی اسلام سے روگردانی ہے۔

شرعی قانون کے تحت عصمت دری کرنا جرم ہے،یہ اسلام اور اللہ کے خلاف جرم ہے، پھر کیوں یہ مذہبی رہنماء عصمت دری کا نشانہ بننے والوں سے اظہار یکجہتی اوراحتجاج سے گریز کرتے ہیں ؟

حضرت محمدﷺکی تعلیمات کو عام کیاجائے ،لوگوں میں شعور و آگاہی پیداکی جائے ،لوگوں کو بتایاجائے کہ حضرت محمدﷺنے کبھی بھی کسی عورت پرہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ ہی خواتین پر قابو پانے کی کوشش کی۔

اگر پاکستان کوخواتین کے لئے ایک محفوظ مقام بنانا ہے تو حکومت کو مذہبی رہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگااورعلماء کومذہب کی تبلیغ کے ساتھ جنسی جرائم سے روکنے کیلئے آواز اٹھانا ہوگی تب جاکر شاید ہمارے معاشرے میں کچھ تبدیلی ممکن ہوسکے گی۔

Related Posts