کسی نیکی کو حقارت سے نہ دیکھئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

نبئ آخر الزمان ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسلام سے پہلے دور کے ایک شخص کا قصہ سنایا جو نیکو کار تھا، عوام کے ساتھ رہتا تھا تاہم اسے اس کی زندگی میں مشکلات درپیش تھیں۔

مذکورہ نیک انسان کو ایک ایسے المیے کا سامنا کرنا پڑا جس کیلئے وہ کوئی حل تلاش نہ کرپایا اور زندگی میں بے شمار لوگوں کو ایسے مسائل سے کبھی نہ کبھی واسطہ پڑتا ہے جن کا حل دریافت نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر ہم دولت مند تو ہوسکتے ہیں لیکن اپنی بگڑتی ہوئی صحت کا علاج نہیں کرسکتے یا پھر ہمارے پاس عمدہ صحت تو ہوتی ہے لیکن ہم دولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اس شخص کے پاس دولت اور عزت دونوں تھیں لیکن ایک بات ایسی تھی جو وہ تبدیل کرنے سے قاصر تھا اور اسے خود بھی یہ علم تھا کہ وہ اپنی حالت خود تبدیل نہیں کرسکے گا جبکہ اِس مسئلے کا حل صرف اللہ کے پاس ہے۔ سو مذکورہ شخص نے یہ تسلیم کیا کہ اس کے پاس اپنی ہی کمزوری پر قابو پانے کا کوئی چارہ نہیں اور اسے یہ اشارہ ملا کہ کسی اور شخص کی مدد کرکے اپنے لیے راستہ نکالے۔

چنانچہ مذکورہ شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں بھیس بدل کر شہر کے دوسرے حصے میں جائے اور جو شخص ملے اسے صدقہ کر دے اور کسی بھی قسم کے سوالات سے بچنے کیلئے غائب ہوجائے کیونکہ وہ اپنے مخلصانہ عمل کیلئے کسی تعریف و توصیف کی خواہش نہیں رکھتا تھا اور بھیس بدلنے، رات کے وقت جانے اور پھر شہر کے دوسرے حصے میں نیکی کرنے کی بھی یہی وجہ تھی۔

پھر نیک شخص اپنی اہلیہ یا کسی اور شخص کو کچھ بتائے بغیر رات کے وقت باہر نکلا اور فیصلے کے عین مطابق جو پہلا انسان اسے ملا، نیکو کار نے اسے صدقہ دیا اور وہاں سے چلا گیا۔

اگلی صبح شہر کے لوگ یہ قصہ ایک دوسرے کو سنا سنا کر ہنستے ہوئے پائے گئے جس پر اس شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے (یعنی آپ کیوں ہنس رہے ہیں)؟ جس پر عوام نے اسے آگاہ کیا کہ کل رات کسی شخص نے اپنا صدقہ ایک چور کے حوالے کردیا۔ چور اس سے کہنے ہی والا تھا کہ اپنا پیسہ دے دو یا پھر جان، جس پر اس شخص نے اسے صدقہ دیا اور بھاگ نکلا۔

یہ بات جان کر نیک شخص کو دھچکا لگا کہ کیوں میرا دل اللہ تعالیٰ کے بارے میں فکر اور سوچ سے بھرپور رہا، اس نے اپنے آپ سے کہا کہ مجھے اپنا صدقہ کسی چور کی بجائے کسی مسکین کو دینا چاہئے تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس کے صدقے کو قبول نہیں فرمائے گا۔

نیا فیصلہ مذکورہ نیک شخص نے یہ کیا کہ اگلی رات پھر باہر جائے اور پھر جو ملے اسے اپنی خیرات دے دے۔ اس نے یہی کیا جس کا نتیجہ اگلی صبح یہ نکلا کہ لوگ مزید زور و شور سے ہنسنے لگے۔ سوال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گزشتہ شب کسی نے اپنا صدقہ ایک طوائف کو دے دیا اور بھاگ نکلا۔ نیک شخص نے اپنے آپ کو اِس بار پھر کوسا اور کہا کہ مجھے امید تھی کہ میں کسی یتیم سے ملتا اور اسے صدقہ دیتا۔

تیسری بار اس شخص نے پھر وہی فیصلہ کیا کہ کسی کو بھی خیرات دے اور پھر بھاگ نکلے، اس نے پھر وہی کام کیا جس کا نتیجہ اگلی صبح پھر برآمد ہوا۔ پورا شہر ہنس رہا تھا کیونکہ کسی نے خیرات قصبے کے سب سے دولت مند انسان کے ہاتھ پر رکھ دی تھی۔

قصہ جیسے جیسے حضور ﷺ سنا رہے تھے، سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ہنس رہے تھے، تاہم حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم ہنس رہے ہو؟ اور پھر قصے کا مفہوم بتانا شروع کیا۔

فرمایا کہ پہلی رات چور کو صدقہ لے کر احساس ہوا کہ صدقے کی رقم اس کیلئے کافی تھی اور کسی شخص کو لوٹنے کی اب ضرورت نہیں تھی۔ چور گھر چلا گیا۔ یہ صدقہ چور کو دینے سے ختم نہیں ہوا بلکہ اس کا فائدہ ہر اس شخص کو پہنچا جسے اس رات وہ جرائم پیشہ شخص لوٹنے والا تھا۔

خصوصاً پاکستان میں ہم سڑکوں پر بھکاریوں کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ چند روپے دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ اگر ہم ان کی تھوڑی بہت مدد کردیں تو وہ کسی اور سے بھیک نہ مانگیں۔ ہماری دی گئی رقم سے ہوسکتا ہے کہ انہیں سارا دن بھیک مانگتے ہوئے نہ گزارنا پڑے۔ شاید ایک اچھی خیرات جو ہم دیں اس سے دوسرے افراد اس بھکاری سے نجات پالیں جو گلی میں سارا دن گھومتا پھرتا ہے۔

دوسری رات کے حوالے سے حضور ﷺ نے طوائف کے بارے میں فرمایا کہ وہ عورت  بھی صدقہ لے کر گھر چلی گئی کیونکہ اسے صدقے کی رقم ملنے کے بعد اپنا جسم فروخت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ صرف نیک شخص نے اس خاتون کو گناہ سے بچایا بلکہ ان تمام مردوں کو بھی جو اس کے ساتھ برائی کیلئے آنے والے تھے۔

آج کل ہم فیصلہ سازی کے معاملے میں بہت پختہ ہوچکے ہیں اور ممکنہ طور پر ہم ایسی خواتین کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ کس طرح خود کو بیچ دیتی ہیں اور انہیں قابلِ نفرت خیال کرتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ہم پر ایسی خواتین سے زیادہ فضل و کرم کرتا ہے جو سچ نہیں ہے۔

بحیثیت مسلمان ہم دوسروں کے بارے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ طوائف جس کیلئے ہم حقارت محسوس کرتے ہیں، اگر اسے وہی زندگی ملتی جو ہمیں ملی ہے تو وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے سے گزار لیتی اور اگر ہمیں خدانخواستہ اس فاحشہ کی زندگی گزارنی پڑ جاتی تو ہم اس سے کہیں بد تر ثابت ہوتے۔

تیسری رات کی حقیقت یہ ہے کہ شہر کے دولت مند شخص کو جب نیک شخص نے خیرات دی تو وہ مالدار آدمی اپنے گھر گیا، اسے شرم محسوس ہوئی کہ جو شخص کم دولت مند ہے، وہ مجھ سے زیادہ کام کر رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چوتھی رات دولت مند شخص بھیس بدل کر نکلا اور دوسروں کو خیرات کی۔ زندگی میں اپنے کسی بھی نیک کام کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہئے۔

سڑک پر موجود کسی بھی شخص کو جو چند روپے آپ دیتے ہیں یا جو اچھے الفاظ آپ کی زبان سے نکلتے ہیں، انہیں بھی حقارت سے مت دیکھئے۔ اس مسکراہٹ کو بھی حقارت سے نہ دیکھئے جس سے آپ کسی ایسے شخص کو نوازتے ہیں جسے آپ اچھی طرح نہیں جانتے لیکن وہ مسکراہٹ اسے کوئی توانائی فراہم کرسکتی ہے۔ کسی بھی اچھے کام کو حقارت سے دیکھنا  چھوڑ دیجئے، کہ یہی حضور ﷺ کا فرمان ہے۔

Related Posts