نواز شریف کی واپسی اور آگے کے پلان ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ن لیگ
نواز شریف کی واپسی اور آگے کے پلان ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میاں نواز شریف پچھلے تین چار برسوں سے ملک سے باہر ہیں، مسلم لیگ ن کے کارکن اور رہنما اپنے قائد کی وطن واپسی کا اعلان کرتے رہتے ہیں، تاہم گزشتہ روز لندن میں شہباز شریف نے نواز شریف کی موجودگی میں صحافیوں سے گفتگو کی اور اعلان کیا کہ میاں نواز شریف ستمبر کے بجائے وسط اکتوبر میں پاکستان واپس لوٹیں گے ۔ نواز شریف صاحب پاس کھڑے سنتے رہے، تاہم انہوں نے صحافیوں سے خود براہ راست گفتگو کرنے سے گریز کیا۔

نواز شریف کی واپسی میں رکاوٹ کیا ؟
میاں نواز شریف کے حوالے سے ان کے قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ وہ پاکستان واپس تو آنا چاہتے ہیں، ویسے بھی وہ پوری طرح یکسو اور کلیئر ہیں کہ آئندہ الیکشن میں حصہ لے کر چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں۔ میاں نواز شریف البتہ پھر سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ وہ اپنی واپسی کے حوالے سے معمولی سا رسک بھی نہیں لینا چاہتے۔ اپنے قریبی حلقے میں وہ ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ زیرو فی صد رسک ہوجائے تب ہی واپس جاﺅں گا۔ یہی بات چند دن پہلے ان کے قریبی ساتھی خواجہ آصف نے ایک چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہہ دی۔

میاں نواز شریف اس وقت مطمئن ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات مکمل طور پر طے شدہ ہیں، پاکستان میں فارن انویسٹمنٹ کے حوالے سے جو اقتصادی منصوبے ہیں، وہ ان تمام میں آن بورڈ ہیں۔ سعودی عرب، امارات، قطر وغیرہ کی سرمایہ کاری میں ایک حد تک نواز شریف کا بھی حصہ ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جو معاشی حالات بن چکے ہیں، اس میں اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کسی قسم کی چال نہیں چل سکتی اورویسے بھی تحریک انصاف کو کارنر کر دینے کے بعد پنڈی والوں کے پاس ن لیگ کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچی۔

تاہم جیسا کہ اوپر بیان کیا، میاں نواز شریف ہر خدشے کو صفر کر دینا چاہتے ہیں، اس لئے وہ ایک بار پھر اچھی طرح سے کیلکولیٹ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی سزاﺅں ، مقدمات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ باہر والوں سے گارنٹیز بھی لیں گے اور تب پاکستان آئیں گے جب انہیںپانچ سو فی صد یقین ہوجائے گا کہ ان کا ساتھ دے کر انہیں اگلا وزیراعظم بنوایا جائے گا۔

ستمبر کے بجائے اکتوبر کیوں ؟
اس کی تین چار وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سولہ ستمبر تک موجودہ چیف جسٹس رہیں گے۔ سترہ ستمبر کو اتوار ہے اور یوں اٹھارہ ستمبر سے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ذمہ داری سنبھالیں گے۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ تب ان کی بریت کا معاملہ شروع کیا جائے۔ انہیں نیب ریفرنس پر احتساب عدالت سے قید کی سزا ملی تھی، جس کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ اس وقت نواز شریف صاحب کا سٹیٹس ایک سزا یافتہ ملزم کا سا ہے، اگر ان کی حفاظتی ضمانت پہلے سے نہ ہو تو انہیں وطن واپسی پر گرفتار کر لیا جائے گا، ممکن ہے سیدھا جیل بھیج دیا جائے یا نگران حکومت کسی عمار ت کو سب جیل قرار دے کر انہیں وہاں نظربند یا قید کر دے ۔

نواز شریف کی خواہش ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی اپیل پر فیصلہ جلد از جلد ہو اور ظاہر ہے وہ بریت چاہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ وطن واپسی پر ضمانت نہ کرائیں اور دو تین دنوں کے لئے جیل جانا پسند کریں تاکہ ہیرو کا تصور بن سکے ۔ یا پھر ان کی ضمانت ہوجائے اور وہ آ کر لوگوں سے ملنا جلنا اور سیاسی سرگرمیاں شروع کریں۔ بظاہر اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہیں فوری ریلیف مل جائے گا۔ البتہ سولہ ستمبر سے پہلے انہیں خدشہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو موجودہ چیف جسٹس رنگ میں بھنگ ڈال کر نواز شریف کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ یہ عمل سولہ ستمبر کے بعد شروع کرنا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگی حلقے ستمبر کے بجائے اکتوبر کو منتخب کرنے کی ایک وجہ خوشگوار موسم بھی بتا رہے ہیں۔ لاہور تنظیم کے رہنماﺅں کا مشورہ تھا کہ ستمبر میں بہت حبس اور گرمی ہوتی ہے۔ مسلم لیگی کارکن خیر سے ویسے بھی عادتاًباہر سڑکوں پر آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ، اگر موسم مشکل ہوا تو تعداد کم ہوجائے گی۔ لاہور میں اکتوبر کا وسط نسبتاً خوشگوار ہوجاتا ہے ۔

تیسری وجہ جوہمارے اِن سائیڈر سورسز بتا رہے ہیں وہ یہ کہ میاں صاحب کی مثال ایسے دودھ کے جلے کی ہے جو چھاچھ یعنی لسی کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ میاں صاحب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے طرز عمل کا بھی جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اٹھارہ ستمبر سے وسط اکتوبر تک ایک ماہ میں خاصی حد تک اندازہ ہوجائے گا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کس طرح کا رویہ اپناتے ہیں ؟ وہ ن لیگ فرینڈلی چیف جسٹس ہوں گے یا انہیں ٹف ٹائم دینے والے ؟

چوتھی وجہ نگران حکومت کی پالیسیوں پر باریک بینی سے نظر رکھنا بھی ہے کہ وہ کہیں عمران خان کو ریلیف تو نہیں دینا چاہتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کی یہ بھی خواہش ہے کہ نگران حکومت مزید سخت فیصلے بھی ایک ہی بار کر ڈالے تاکہ لعنت ملامت اب ان پر پڑے اور پی ڈی ایم حکومت پر بوجھ کچھ کم ہو۔ بجلی مزید مہنگی ہونا، پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور گیس کو مہنگا کرنا جیسے اقدامات نگران حکومت کو اگلے دو تین ہفتوں میں کرنا پڑیں گے۔ وسط اکتوبرسے پہلے یہ سب کچھ ہوجائے گا۔

واپسی اور تاریخی استقبال
میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے ایک مکمل پلان بن چکا ہے۔ لاہور کے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو اہداف دئیے جائیں گے، شیخوپورہ ، قصور اور گوجرانوالہ وغیرہ سے بھی مسلم لیگی قافلے لاہور پہنچیں گے۔ کوشش یہی ہے کہ بڑا استقبال ہو اور اتنے لوگ جلوس میں شامل ہوجائیں کہ میاں صاحب کی واپسی کا بھرپور تاثر بن سکے ۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ اطلاع یہ ملی کہ ن لیگی ارکان اسمبلی کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے نہ صرف اتنے سو یا ہزار لوگ لانے ہیں بلکہ ممکنہ آنے والوں کے فون نمبرز بھی شیئر کریں ۔ کہا جارہا ہے کہ لندن سے بعض کارکنوں کو میاں نواز شریف اور کچھ کو ان کا سٹاف فون کر کے چیک کرے گا کہ واقعی یہ درست نمبر ہیں۔ یہ خیال بھی ہے کہ نواز شریف سے ن لیگی کارکن اگر فون پر بات کر لیں گے تو ان کا جوش وخروش بڑھ جائے گا۔

واپسی کے بعد طاقت کے مظاہرے
ایک بھرپور پلان اس حوالے سے بھی بن چکا ہے کہ جب میاں نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے تو ان سے مختلف وفود ملاقاتیں کریں گے۔ ان میں خاص طور سے کے پی کے اور بلوچستان سے اہم سیاسی شخصیات ہوں گی جو ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ بلوچستان سے جمال کمال سمیت آٹھ دس ارکان صوبائی وقومی اسمبلی سے بات ہوچکی ہے، یہ لوگ ایک وفد کی شکل میں نواز شریف سے مل کر ان کی پارٹی میں شامل ہوں گے۔ یہ سب روزانہ کی بنیاد پر ہوگا تاکہ یہ تاثر بنے کہ ہر کوئی ن لیگ میں آنا چاہتا ہے۔ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کے چند ایک تگڑے امیدواروں سے بات ہوچکی ہے۔پارٹی میں شامل ہونے کے یہ اعلان ن لیگ کو تقویت دیں گے۔

ن لیگی بیانیہ بنانے کی کوشش
کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی واپسی کے بعد سب سے زیادہ محنت اپنی پارٹی کا بیانیہ بنانے میں کریں گے۔ انہوںنے نجم سیٹھی اور بعض دیگر سینئر نکتہ سنج صحافیوں سے بھی رابطہ کر رکھا ہے، دلکش سلوگن لکھے جائیں گے ، وہ نکات نمایاں کئے جائیں گے جو عوامی طبقات کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔ میاں نواز شریف نئی امیدیں اور نئے خواب بیچنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ملک میں ممکنہ بڑی انویسٹمنٹ کے منصوبوں کا ذکر کریں گے کہ میں ان کے ذریعے ملک کی تقدیر بدل دوں گا۔ نواز شریف تاجروں، کاروباری طبقات کو خاص طور سے اٹریکٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مہنگائی کم کرنے کا پلان بھی وہ دیں گے، بجلی کی قیمت کم کرنا وغیرہ وغیرہ۔

کیا تحریک انصاف کو کاﺅنٹر کیا جا سکے گا؟
میں نے یہ سوال کئی باخبر ن لیگی دوستوں سے کیا۔ شریف فیملی کی سوچ جاننے والے ان احباب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو اس کی زیادہ فکر نہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کو اپنی پوری قوت کے ساتھ الیکشن لڑنے ہی نہیں جائے گا۔ عمران خان میدان میں نہیں ہوں گے اور تحریک انصاف کے بہت سے اچھے امیدوار ٹکٹ واپس کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، یہ آزاد لڑیں گے اور اگر جیت گئے تو انہیں باآسانی ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔

نواز شریف اور ان کے تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ ہمیں تحریک انصاف کے ووٹ تونہیں ملنے نہ ان کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اینٹی عمران خان ووٹ کو اکھٹا کر دیں۔ نواز شریف کے خیال میں پنجاب کے بیشتر حلقوں میں اچھا خاصا مضبوط ن لیگی ووٹ بینک ہے۔ جب اس کا سامنا کمزور اور منتشر تحریک انصاف سے ہوگا اور الیکشن ڈے کی اچھی مینجمنٹ ن لیگ کا ایڈوانٹیج ہوگی تو انہیں پنجاب سے خاصی نشستیں مل جائیں گی۔ نوا زشریف اب چاہتے ہیںکہ کے پی کے سے بھی انہیں کچھ نشستیں مل جائیں، وہ بلوچستان سے بھی دو چار سیٹیں چاہتے ہیں تاکہ قومی جماعت کا تاثر بن سکے ۔

کیا اگلی حکومت مخلوط ہوسکتی ہے؟
نوازشریف کے لئے مخلوط حکومت کوئی مسئلہ نہیں، وہ آسانی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی کوحکومت میں شامل کر لیں گے۔ کے پی کے صوبائی حکومت بھی وہ اے این پی، جے یوآئی وغیرہ کو دینے کے لئے تیار ہیں، البتہ اس میں وہ مسلم لیگ کے لئے کچھ شیئر مانگیں گے۔ البتہ پنجاب میں نواز شریف کی خواہش ہے کہ اچھی مضبوط صوبائی حکومت بن جائے ۔ مرکز میں بھی ان کی خواہش ضرور ہے کہ سادہ اکثریت حاصل ہو یا اس کے قریب قریب معاملہ پہنچ جائے تاکہ مخلوط حکومت تو ہومگر بلیک میلنگ والا معاملہ نہ ہو۔

کیا ایسا ہوگا؟
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ مشہور مثل ہے کہ آدمی کچھ سوچتا ہے جبکہ قدرت کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔ تاہم بادی النظر میں کئی انڈیکیٹرز نواز شریف کے حق میں ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ نواز شریف نے خود کو ممکنہ مستقبل کی معاشی پلاننگ میں فٹ کر رکھا ہے جبکہ ان کا اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ عمران خان مستقبل کے اس منظرنامے میں بالکل مس فٹ ہیں۔

اس وقت پریشان کن بات صرف تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت وپزیرائی ہے۔ ن لیگ اسے کاﺅنٹر کرنے کے مختلف منصوبے بنارہی ہے۔ بہت سے آئیڈیاز ہیں جن پر نواز شریف کی واپسی کے بعد عمل کیا جائے گا۔ اب وہ کس حد تک کامیاب ہو سکیں گے، یہ ہم سب دیکھ ہی لیں گے۔

حرف آخر یہ کہ میاں نواز شریف آنا چاہتے ہیں، مگرصفر رسک کی موجودگی میں۔ اگر قابل اعتماد گارنٹیز مل گئیں اور نواز شریف مکمل مطمئن ہوگئے تو وہ اکتوبر کے وسط میں وطن لوٹ آئیں گے، ورنہ سیاست میں واپسی کے راستے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور شریف خاندان کے لئے اپنے ایک بیانیہ کو ترک کر کے دوسرا عذر تراش لینا کون سا مشکل کام ہے۔

Related Posts