آج پاکستانی قوم شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 142واں یومِ ولادت منا رہی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آج پاکستانی قوم شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 142واں یومِ ولادت منا رہی ہے
آج پاکستانی قوم شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 142واں یومِ ولادت منا رہی ہے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستانی قوم آج شاعرِ مشرق اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا 142واں یومِ ولادت منا رہی ہے جبکہ مصورِ پاکستان علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر بھی ہیں۔

بیسویں صدی کے عالمی سطح پر شہرت یافتہ شاعر، محقق اور فلسفی علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ آپ کا گھرانہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال کے یومِ پیدائش پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا خراجِ عقیدت

علامہ محمد اقبال نے جس ماحول میں پرورش پائی، اس کے پیش نظر ان کے اندر اسلامی تعلیمات کا رجحان کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آتی، لیکن انہوں نے فلسفہ، اردو، عربی اور فارسی کی زبانوں پر عبور حاصل کرکے شاعری کے فن کو چارچاند لگا دئیے۔

اُردو شاعری میں مرزا غالبؔ کے بعد اگر کوئی سب سے بڑا نام نظر آتا ہے تو وہ بلا شبہ علامہ اقبال کا ہے جبکہ انہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر غزل گوئی اور عشق و محبت کے فرسودہ جذبات کو اپنا مرکز و محور نہیں بنایا۔

فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے علامہ اقبال کا شمار گزشتہ صدی کے ایسے شعراء اور فلسفیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عالمِ انسانیت کی تاریخ بدلنے میں اور انسان کی سوچوں کو ایک نیا رُخ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔’

شاعری کے فن میں علامہ اقبال نے وہ کمال پیدا کیا کہ آج 21ویں صدی کے عہد میں بھی ان کا کوئی مدِ مقابل دور دور تک نظر نہیں آتا، جبکہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کی اساس سطحی عشق کی بجائے عشقِ حقیقی پر رکھی۔

فنِ شاعری میں عشقِ حقیقی سے مراد خدا سے عشق ہے جس نے علامہ اقبال کی شاعری میں ایک واضح تڑپ، جان اور مہمیز پیدا کردی جس نے برصغیر میں آزادی کے لیے انگریز سامراج سے برسرِ پیکار مسلمانوں کے جذبات کو زندگی عطا کی۔

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے

وہی جہاں ہے ترا جس کو تُو کرے پیدا

یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے

آج بھی ہو جو براہیم ؑ سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پرنہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

کنارِ دریا خضرؑ نے مجھ سے کہا باندازِ محرمانہ

سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

خبر نہیں، کیا ہے نام اِس کا، خدا فریبی، کہ خود فریبی

عمل سے فارغ ہوا مسلماں، بنا کے تقدیر کا بہانہ

حکیم الامت علامہ اقبال نے انگلینڈ میں زندگی کا بڑاحصہ گزارنے کے باوجود اسلامی تہذیب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ مسلمان نوجوانوں کو اپنے فکرو فلسفے کی روشنی سے منور کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ؟

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جودیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

شاعرمشرق ایک پیشہ ور وکیل کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے جبکہ 1922ء میں حکومت نے آپ کو سر کا خطاب دیا جسے آپ نے قبول نہ کیا۔ 1926ء میں آپ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور آزادی وطن کے علمبردار کہلائے۔

الٰہ آباد میں 1931ء میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں آپ نے شرکت کی۔ اس دوران علامہ اقبال کا صدارتی خطبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔آپ نے اس خطبے کے دوران مسلمانوں کے آزاد وطن اور ہندوؤں سے الگ قومیت کا تصور پیش کیا۔

دو قومی نظریہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا ، تاہم جس انداز میں علامہ اقبال نے اس نظرئیے کو اپنی شاعری اور فلسفے کے تحت تقویت دی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے مسلمانوں کو آزاد وطن دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا، تاہم زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ 21 اپریل 1938ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

ان کی وفات کو آج 81 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا، لیکن آج بھی پاکستانی قوم علامہ اقبال کی احسان مند ہے، اور ہر سال ان کا یومِ ولادت ملی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ 

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کے 142ویں یومِ پیدائش کے موقعے پر قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ بھی مفکر اسلام کی احسان مند ہے۔

مزید پڑھیں: علامہ اقبال کے افکار نے مسلمانوں میں امید کی شمع روشن کی۔وزیر اعظم عمران خان

Related Posts