سماجی انصاف کی علامت محمد علی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

محمد علی کی آج چوتھی برسی ہے جو اپنے وقت کے عظیم ترین باکسر تھے، تاہم ان کی وجۂ شہرت صرف باکسنگ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے نسلی مساوات اور سماجی انصاف کیلئے ایک الگ جنگ لڑی۔ محمد علی ان چند ایک ایتھلیٹس میں سے ایک تھے جو اپنے کھیل سے آگے نکلے اور انصاف کی علامت بن گئے۔مالکم ایکس کے ساتھ ساتھ محمد علی بھی ایسے ہی ایک مسلمان امریکی ہیں جنہوں نے امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے دل جیت لیے۔

سونی لسٹن سے فروری 1964ء میں ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپین شپ جیتنے کے بعد محمد علی کا قبولِ اسلام امریکہ کیلئے ایک بڑا جھٹکا تھا، تاہم سن 1967ء میں محمد علی نے ایک اور بڑا جھٹکا دیا جب انہوں نے ویتنام کی جنگ میں امریکی فوج کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔محمد علی  ویتنام کی جنگ کی مخالفت پر امریکی عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی نظروں سے گر گئے جس کی پاداش میں محمد علی ہیوی ویٹ چیمپین شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 3 سال تک ان کی باکسنگ پر پابندی عائد کردی گئی۔

صرف ویتنام کی جنگ پر اپنا مؤقف تبدیل نہ کرنے پر محمد علی نے اپنے باکسنگ کیرئیر کے 3 سال اور لاکھوں ڈالرز کا خسارہ برداشت کیا۔ محمد علی اس مسئلے سے جان چھڑا کر کینیڈا فرار ہوسکتے تھے جیسا کہ بہت سے نوجوان امریکیوں نے کیا بھی، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور تمام تر نفرت اور تنقید کو برداشت کیا۔ پاکستان کے نیلسن منڈیلا بننے والے بہت سے لوگ جو بیرونِ ملک فرار ہوئے، ان کے برعکس محمد علی نے ایسا نہیں کیا اور تمام تر الزامات بخوبی سہے۔

ویتنامی جنگ کی مخالفت کے حوالے سے محمد علی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں ایک اور غریب قوم کو جلانے اور قتل کرنے کیلئے اپنے گھر سے 10 ہزار میل دور نہیں جاؤں گا ، وہ بھی صرف اس لیے کہ سفید فام آقاؤں کی جارحیت دنیا بھر میں کالے افراد پر قائم رہے۔ آج ہی وہ دن ہے جب ایسی تمام برائیاں اختتام کو پہنچیں گی۔ مجھے کہا گیا کہ تم یہ مؤقف اپنا کر اپنے لاکھوں ڈالرز سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ لیکن میں نے یہ بات ایک بار کہہ دی ہے اور میں یہی بار بار کہوں گا۔ میرے لوگوں کے حقیقی دشمن یہیں ہیں۔میں اپنے مذہب، اپنے لوگوں یا خود اپنی ذات کی توہین نہیں کروں گا صرف اس لیے کہ ان لوگوں کو بھی گوروں کا غلام بنایا جائے جو صرف انصاف، آزادی اور مساوات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

باکسر محمد علی کے صرف ایک مضبوط عمل نے انہیں ایک قومی باکسر سے ایک ایسے شخص میں تبدیل کردیا جو سماجی انصاف اور نسلی مساوات کیلئے جنگ لڑتا ہے۔ محمد علی نے اپنا کافی وقت کالجز کے کیمپسز میں جنگ کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے بھی گزارا۔

جنگِ ویتنام کی سرِ عام مخالفت سے محمد علی نے دیگر افراد مثلاً ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ  اور جونیئر ڈاکٹر کنگ کی حوصلہ افزائی کی جو یہ کہنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے کہ امریکا کو ویتنام کی جنگ نہیں لڑنی چاہئے تاہم انہوں نے فیصلہ کیا کہ عوام کے سامنے نہ آیا جائے تاکہ شہری حقوق متاثر نہ ہوں جو صدر جانسن کی پالیسیوں کے باعث ہوسکتا تھا۔ تاہم محمد علی کی ہمت و حوصلے سے متاثر ہو کر ڈاکٹر کنگ نے حتمی طور پر فیصلہ کیا کہ ویتنامی جنگ کی مخالفت کریں کیونکہ جنگ کے مخالفین میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔

دوسری جانب اگر اسلامی روایات کا جائزہ لیا جائے تو ویتنامی جنگ کی مخالفت کی تائیدنظر آتی ہے کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق ضرور کہیں۔

اپنے وجدان کی راہ پر چلنے والے محمد علی سیاسی طور پر ذمہ دار ایتھلیٹ بن گئے اور ٹامی اسمتھ سے لے کر جان کارلوس تک ان کا اثر محسوس کیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے مکے سیاہ رنگ سے رنگ لیے تھے جو میکسیکو میں 1968ء میں اسی عالم میں شریک ہوئے۔ محمد علی کا کردار کسی بھی ایسے شخص کیلئے مثال قرار دیا جاسکتا ہے جو عوامی رائے کے خلاف جا کر حق کی بات کرنا چاہے۔

بھوک کے خلاف جنگ میں محمد علی نے خیراتی ادارے قائم کیے جنہوں نے 23 کروڑ 20 لاکھ بھوکے افراد کو دنیا بھر میں کھانا کھلایا۔ علاوہ ازیں محمد علی نے کینیا جیسے ملک میں طبی سہولیات مہیا کیں۔ محمد علی کو خود کو حاصل سہولیات کا اندازہ تھا اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہیں ان سے کم ہی سہولیات میسر آتی ہیں۔ اس لیے محمد علی  نے ایسے لوگوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔

نائن الیون کے دوران بھی محمد علی اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے خلاف کھل کر بات کرتے رہے۔ نائن الیون سانحے کے بعد ایک انٹرویو کے دوران محمد علی نے کہا کہ مجھے جو چیز زیادہ تکلیف دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کو ملوث کیا گیا جس سے نفرت اور تشدد جنم لے گا۔ اسلام کوئی قاتل مذہب نہیں ہے۔ اسلام کا مطلب امن وسلامتی ہے۔ میں گھر پر بیٹھ کر لوگوں کا یہ عمل نہیں دیکھ سکتا کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل کی وجہ قرار دیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار کے دوران دسمبر2015ء میں  جب ری پبلیکن پارٹی کے ایک امیدوار نے مسلمانوں کے خلاف پابندی تجویز کی تو محمد علی نے کہا کہ ایسے شخص کیلئے جو سیاسی درستگی کا کبھی الزام نہ لے سکا، میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں درست تصویر پیش کرنا ہوگی اور یہ بتانا ہوگا کہ گمراہ قاتلوں کو لوگوں کے اسلام کے بارے میں متضاد رویوں نے بھٹکایا تھا۔

یہاں  قاتلوں سےمراد پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں سین برنارڈینو اور دیگر ایسے واقعات ہیں جن میں مسلمان شدت پسندوں کی کارروائیاں نظر آتی ہیں۔ محمد علی کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنی اصل جنم بھومی کو نہ بھولیں اور اپنے حق کیلئے ہمیشہ جدوجہد کریں۔ ربی مائیکل لرنر نے محمد علی کے جنازے پر جو الفاظ کہے وہ سماجی انصاف کیلئے لڑنے والے جنگجو کے شایانِ شان ہیں۔

اس نے کہا کہ ہم محمد علی کی اس طرح عزت کیسے کریں جیسے کرنے کا حق ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ محمد علی کو عزت دینے کا حق یہ ہے کہ آج ہم سب محمد علی بن جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب، یہاں موجود سب لوگ اور جو کوئی ہمیں سن رہا ہے، سب محمد علی بن جائیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ قوت کے ساتھ سچ کس طرح بولتے ہیں۔ ہم سب کو بولنا ہوگا۔ ہم آہنگی کے راستوں پر چلنے سے انکار کردو۔ ہم سب کو ہم آہنگی سے انکار اور سچ کا اقرار کرنا ہوگا۔ 

Related Posts