مہاجر قومیت اور مہاجر کلچر ڈے کا معاملہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مہاجر قومیت اور مہاجر کلچر ڈے کا معاملہ
مہاجر قومیت اور مہاجر کلچر ڈے کا معاملہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے پتہ چلا کہ آج مہاجر کلچر ڈے منایا جا رہا ہے۔ حسب عادت کچھ لوگوں نے اس کے حق میں جبکہ کچھ نے اس کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ اس پر پوسٹ لکھنے کا سوچا تو خیال آیا کہ چند جملوں کے بجائے اس پر بلاگ لکھا جائے ۔

میرے خیال میں اگر مہاجر خود کو الگ قوم سمجھتے اور کہتے ہیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ وہ اگر اپنی الگ شناخت ظاہر کرتے تو ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔ میری رائے میں لاکھوں ، کروڑوں لوگوں پر اپنی رائے تھوپنے کے بجائے انہیں یہ رائٹ ملنا چاہیے کہ وہ اپنی شناخت طے کر سکیں، ہم کون ہوتے ہیں انہیں جبری شناخت دینے والے۔

مہاجرکون ہے ؟
اب آجاتے ہیں لفظ مہاجر کی بحث کی طرف ۔
قیام پاکستان کے وقت اور کچھ عرصہ بعد تک ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ان کی دو بڑی کیٹیگریز بنتی ہیں، وہ لوگ جو پنجابی یا ہریانوی بولنے والے تھے اور وہ لوگ جو پنجابی النسل یا پنجابی بولنے والے نہیں تھے۔ وہ اردو بولتے یا گجراتی، میمنی،بہاری اور اسی سے ملتی جلتی زبانیں۔

پنجابی بولنے والے مہاجر
پنجابی بولنے والے لوگوں کی اکثریت مشرقی یعنی انڈین پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستانی پنجاب آئی، جالندھر، امرتسر، فیروز پور وغیرہ سے۔یہ لوگ لاہور، فیصل آباداور پنجاب کے دیگر شہروںمیں آباد ہوگئے۔ ان میں سے بہت سوں کے رشتے دار، برادری اور قومیت(جاٹ، راجپوت، گجر ، ارائیں وغیرہ)والے پہلے ہی یہاں آباد تھے۔ یہ لوگ پنجاب میں سیٹل ہوگئے ۔

وقف املاک میں کسی کو کچھ ملا، کسی کو نہ ملا۔ محنت کش، کاشتکار لوگ تھے، کام کاج میں جت گئے ، انہیں پنجاب میں زبان کے بیرئر کا سامنا کرنا پڑا نہ کلچر یا کھانے پینے کے مسائل کا۔ تب کراچی وفاقی دارالحکومت تھا، اس لئے کچھ لوگ ملازمت یا ترقی کرنے کی نیت سے کراچی بھی چلے گئے ، وہاں سیٹ ہوگئے ، مگر ان کی شناخت وہاں بھی بطور پنجابی رہی۔

آج پون صدی گزر جانے کے بعد انہیں کوئی مہاجر نہیں کہتا۔اپنی انفرادی شناخت کے طور پر ان میں سے بعض خود کو امرتسری کشمیری، جالندھری ، ہوشیارپوری، فیروز پوری وغیرہ کہہ لیتے ہیں، مگر یہ ان کے لئے کسی رکاوٹ یا مشکل کا باعث نہیں بنتا۔

اردو سپیکنگ یا نان پنجابی مہاجر
مہاجرین کی بڑی تعداد کا تعلق ہندوستان کے نان پنجابی علاقوں سے تھا یا وہ لوگ وہاں رہنے کے باوجود پنجابی نہیں بولتے تھے۔ ان میں سے بہت سے اتر پردیش یعنی یوپی کے مختلف علاقوں لکھنو وغیرہ، کچھ دہلی اور کچھ دہلی کے قریبی علاقوں حصار وغیرہ سے تھے۔ایک حصہ گجراتی کمیونٹی کا تھا، ان کے اندر بھی کئی سب کیٹیگریز ہیں۔میں بدقسمتی سے زیادہ واقف نہیں،کاٹھیاواڑی، میمنی، کچھی، کیرالوی،راجھستانی وغیرہ وغیرہ۔

ان مہاجرین کی اکثریت نے کراچی کا رخ کیا چونکہ ان میں سرکاری ملازمین یا فنون کے ماہرین بھی خاصے تھے اور کراچی نئے دارالحکومت میں اس سب کی ضرورت اور بہتر مواقع موجود تھے۔ ایک حصہ شہری سندھ کے دیگر شہروں حیدرآباد ، سکھر ، میرپور خاص ، سانگھڑ وغیرہ میں آباد ہوگیا۔

ان اردو سپیکنگ لوگوں میں سے کچھ لوگ پنجاب میں بھی آباد ہوئے، مختلف شہروں میں ان کی چھوٹی بڑی پاکٹس ہیں۔ ملتان شہر میں روہتکی زبان بولنے والوں کی ایک پاکٹ ہے، اسی طرح بہاولپور شہر میں بھی پاکٹ ہے، میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ میں بھی کچھ گھرانے ہیں ، اسی طرح ڈی آئی خان جو سرائیکی اکثریتی علاقہ ہے، وہاں بھی شہر کے اندر چند بازاروں اور محلوںمیں مہاجر پاکٹ موجود ہے۔ پنجاب میں مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کا کلسٹر (گنجان اکثریتی علاقہ)کہیں نہیں بن سکا،تاہم پنجاب کے چند ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اردو سپیکنگ ہوتے ہیں مگر وہ اپنی اس جداگانہ شناخت پر زور نہیں دیتے اور مقامی آبادی کے ساتھ مکس ہو چکے ہیں۔

پنجاب کی اردو سپیکنگ کمیونٹیز
پنجاب کی پنجابی بولنے والی کمیونٹیز کے لئے تو پنجاب میں قطعی طور پر کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ پنجاب کی نان پنجابی یا اردو سپیکنگ مہاجر کمیونیٹیز کے لئے بھی کسی قسم کے سیاسی یا دیگر مسائل پیدا نہیں ہوئے۔ البتہ مقامی آبادی نے انہیں الگ اور اپنے سے مختلف سمجھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے بچپن ہی میں احمد پور، بہاولپور ، ملتان میں یہ بات بہت بار سنی کہ فلاں ہندوستانی فیملی ہے یا محلے کا فلاں گھر مہاجر ہے ، ہمارے شہر میں دو چار گھرانے یوپی والے کے نام سے بھی مشہور تھے۔ میرے ایک کلاس فیلو کا تعلق اسی فیملی سے تھا، ان کی سائیکلوں کی بڑی دکان تھی جو یوپی سائیکل ورکس کے نام سے معروف تھی۔

دلچسپ بات ہے کہ بعض جگہوں پر ان مہاجر گھرانوں نے بھی مقامی آبادی میںمکس ہونے یعنی رشتے ناتے کرنے اور مقامی زبانیں سیکھنے میں دلچسپی نہیں لی۔ ہاسٹل کے زمانے میں ایک لڑکا میرا روم میٹ رہا، وہ فخریہ بتایا کرتا تھا کہ ہم لوگ تیس سال سے ملتان میں رہ رہے ہیں، مگر میرے والد سرائیکی نہیں جانتے۔ وہ لڑکا بھی ملتان کے سکولوں، کالجوں میں پڑھنے کے باوجود سرائیکی نہیں بولتا تھا، البتہ سمجھ لیتا ۔

ہر جگہ مگر ایسا نہیں تھا۔ ہمارے کئی دوست بہت اچھی سرائیکی بولتے، حتیٰ کہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا کہ سرائیکی ان کی اپنی زبان نہیں۔ اس طرح یہ کیس ٹو کیس مختلف رہا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ مقامی زبانیں(سرائیکی، پنجابی )جاننے یا نہ جاننے کا انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا۔یہ بات ان کی سرکاری ملازمتوں ، سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے رکاوٹ نہیں بنی۔اس سے انہیں مقامی سطح پر بھی کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مقامی آبادیوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ان کی اپنی آبائی زبان ، کلچر اور رہن سہن(رہتل) ہے تو ٹھیک ہے، ان کا حق ہے۔ یوں آج پنجاب میں مہاجر کوئی معروف اصطلاح نہیں، سیاسی طور پر اس کی الگ شناخت نہیں ۔

ایم کیو ایم نے ایک زمانے میں کوشش کی کہ پنجاب میں اپنی شاخیں بنائے ، مگر اسے زیادہ پزیرائی نہ مل سکی۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پیچھے اور محروم رہ گیا تو اس کی وجہ مہاجر یا اردو سپیکنگ ہونا نہیں۔ اسے غربت، تعلقات نہ ہونے یا بے وسیلہ ہونے کی سزا ملی جس میں مقامی لوگ بھی اسی طرح شریک رہے۔

سندھ کا مہاجر ایشو
سندھ میں اس کے برعکس معاملہ رہا۔ پہلی گڑ بڑ تو یہ ہوئی کہ کراچی کو وفاقی دارالحکومت بنا دیا گیا ، بڑے شہر ہونے کے ناتے یہ فطری تھا، مگر ہمارے حکمرانوں اور حکمران اشرافیہ کی غلطی یہ ہوئی کہ وسائل کا بڑا حصہ کراچی ہی میں مختص کر دیا گیااور مختلف شہروں کو ہب بنانے کی کوشش نہیں کی گئی جیسا کہ چین اور بعض دیگر ممالک نے کیا ، جس طرح انڈیا نے ایک طرف ممبئی کو مرکز بنایا اور پھر بنگلور کو آئی ٹی ہب بنا ڈالا، حیدرآباد اور کلکتہ، مدراس وغیرہ پر بھی توجہ دی گئی۔

کراچی سندھیوں کا سب سے اہم شہر تھا، ان کی اس شہر سے گہری وابستگی رہی ، اس کی ایک خاص تاریخی حیثیت بھی رہی ہے۔ کراچی اور اربن سندھ میں جب بڑی تعداد میں نان سندھی(اردو پلس گجراتی سپیکنگ وغیرہ) مہاجر آباد ہوئے تو فطری طور پر کچھ عرصے کے بعد مقامی سندھی آبادی میں تحفظات اور خدشات پیدا ہوئے۔ ایک وجہ یہ بنی کہ بیوروکریسی میں ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کی،شائد اس لئے کہ وہ پڑھے لکھے اور سرکاری ملازمت کا تجربہ رکھتے تھے ۔ ایک دوسرے سے تعلقات اور رشتے ناتے کا بھی فیکٹر رہا ہوگا۔ سندھیوں کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ اپنے ہی صوبے اور اپنی دھرتی پر اقلیت نہ بن جائے یا پسماندہ اور پیچھے نہ رہ جائیں۔
مہاجروں کے بڑے حصے کی مادری زبان کے قومی زبان بننے اور اس کی خاص سرکاری حیثیت نے بھی ایک کردار ادا کیا۔ پنجاب اور جنوبی پنجاب میں سرائیکی، پنجابی دونوں زیادہ تر بولی جانے والی زبانیں رہی ہیں۔

ان میں لکھنے پڑھنے کا کام زیادہ نہیں ہوا، ان زبانوں میں آج تک کوئی مناسب اخبار نہیں نکل سکا اور نہ ہی وہ فروخت ہوتا ہے۔ یہاں پرائمری سطح پر بھی ان زبانوں میں تعلیم نہیں ہوتی۔ملتان اور بہاولپورالگ ریاستیں رہی ہیں ، مگر دونوں جگہوں پر فارسی سرکاری زبان تھی، ملتان پر تو سکھوں کا قبضہ ہو گیا اور پھرانگریزوں نے اسے پنجاب کے ساتھ ملا دیا۔

بہاولپور تو قیام پاکستان تک الگ ریاست تھی، وہاں کے نواب سرائیکی بولتے تھے، مگر سرکاری سطح پر فارسی رائج تھی، سرائیکی لکھنے پڑھنے کا کوئی رواج نہیں ڈالا گیا۔ اس کے برعکس سندھ کی ریاست حیدرآباد کے نوابوں نے سندھی لکھنے پڑھنے کا رواج ڈال دیا تھا۔ اسی وجہ سے سندھیوں کی بڑی تعداد آج بھی سندھی اخبار پڑھتی ، سندھی چینل دیکھتی ہے۔ سندھی زبان میں بے شمار کتابوں کے تراجم ہوچکے ہیں،عالمی ادب کے بعض تراجم تو اردو سے بھی پہلے ہوئے۔

سندھ لسانی بل اور کوٹہ سسٹم
پیپلزپارٹی کے دور میں سندھ میں سندھی زبان کو رائج کرنے کا بل اسمبلی سے منظور ہوا، اس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ جنگ اخبار نے وہ مشہور نظم چھاپی، اردو کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے۔ اس پر باقاعدہ ہنگامے بھی ہوئے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں کے حوالے سے سندھی اور مہاجر آبادی کے لئے کوٹہ سسٹم مقرر کیا گیا۔ شہری سندھ یا مہاجر آبادی کے لئے چالیس فیصد کوٹہ رکھا گیا۔ یہ کوٹہ سسٹم آج بھی رائج ہے، جنرل ضیا الحق نے عوامی ردعمل کے خوف سے اسے جاری رکھا اور اب شائد اسے کوئی بھی نہیں ختم کر سکتا۔

مہاجر شناخت کا مسئلہ
کوٹہ سسٹم کے اپنے فائدے ، نقصان رہے ہوں گے، میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مقصد کسی قسم کی تلخی پیدا کرنا ہرگز نہیں۔اس سے مگر یہ نقصان ضرور ہوا کہ مہاجر شناخت کا مسئلہ پیدا ہوا اور اسی نے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالی۔جب کسی لڑکے کو صرف اس لئے میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملے کہ اس کا والد مہاجر تھا تو اس کا ردعمل ہونا فطری ہے۔ آج اگرکوئی خود کو مہاجر کہلاتا ہے تو اس کے پیچھے وجوہات ہیں ، یہ صرف تعصب، لسانیت کا معاملہ نہیں۔ محرومیاں پیدا ہوں تب ہی قوم پرستی کی تحریک کو قوت ملتی ہے۔

ضیا دور میں بھٹوصاحب کی پھانسی اور بعدمیںپانی کے مسائل وغیرہ پر سندھی قوم پرستی کو تقویت ملی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن سے بلوچ، پشتون قوم پرست تنظیموں کو قوت ملی۔ آخر پنجاب میں قوم پرست جماعت کیوں نہیں بنتی؟ اس لئے کہ یہاں پنجابی ہونے کی بنیاد پر کسی محرومی کا مسئلہ درپیش نہیں۔ پنجابی ہونے سے ملازمت، تعلیم یا کسی دیگر حوالے سے عدم مساوات یا مشکل کا سامنا نہیں ۔ مہاجر قومیت کی بات اگر ہوتی ہے تو اس کی پیچھے وجوہات ہیں، انہیں نظرانداز کرنا آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔

مجھے سندھی دوستوں کے جذبات، ان کے تحفظات کا بھی اندازہ ہے۔ اپنے ہی خطے میں اقلیت یا کمزور بننے کا خدشہ ہی کوٹہ سسٹم اورلسانی بل وغیرہ کی طرف لے گیا۔ ان معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے سلجھایا جا سکتا تھا، اگر حکمران دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیہی سندھ میں بھی انڈسٹریل ہب بناتے یا کسی اور طریقے سے پسماندہ سندھی علاقوں کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے۔

کلچر ڈے
اب آتے ہیں کلچر ڈے کے معاملے پر۔ میرے نزدیک یہ بھی فطری بات ہے۔ اگر سندھ میں سندھی کلچر ڈے منایا جائے گا، لوگ اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر تصاویر کھنچائیں گے، اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں گے تو ظاہر ہے سندھ میں رہنے والے اردو سپیکنگ مہاجر بھی ایسا ہی کریں گے۔ صرف سندھی نہیں بلکہ ملک میں بلوچ کلچر ڈے، پشتون کلچر ڈے، پنجابی کلچر ڈے وغیرہ منایا جاتا ہے۔ اب تو سرائیکیوں نے بھی اپنا کلچر ڈے منانے اور سرائیکی اجرک ڈے منانے کی طرح ڈالی ہے، اگرچہ وہ ابھی مہاجر کلچر ڈے کی طرح زیادہ مشہور نہیں ہوا۔

میرے نزدیک بات بڑی صاف ہے۔ مہاجر ایک الگ شناخت ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ اپنی زبان، کلچر، رہن سہن، کھانے پینے وغیرہ کے حوالے سے سندھی نہیں۔ جب کسی گھر میں مکین سندھی نہیں بولتے، سندھی اجرک نہیں پہنتے، سندھی ٹوپی کلچرل علامت سمجھ کر نہیں پہنتے، سندھی ڈشز ان کے گھروں میں نہیں بنا کرتیں ، سندھی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے اور منشور میں مہاجروں کے لئے کچھ جگہ نہیں رکھتی ، تو وہ خود کو سندھی شناخت کے ساتھ کیسے جوڑ سکتے ہیں؟

یہ مگر کلچرل حوالے سے ہی ہے۔ سیاسی اعتبار سے وہ سندھ کا حصہ ہیں، ان کا ڈومیسائل سندھی ہے ، ان کے مفادات بھی سندھ کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہیں، جڑے ہونے چاہئیں۔

مہاجر کی ثقافتی شناخت فطری امر ہے، سیاسی شناخت میں بھی کوئی حرج نہیں، اگر وہ پرامن جمہوری طریقے سے پیش ہو ، البتہ اگر اسے سندھ کی تقسیم یا اردو سپیکنگ صوبہ بنانے کی بنیاد بنایا جائے تب مسائل پیدا ہوں گے، کشیدگی بڑھ گی اور تب سندھ کی دونوں آبادیاں سندھی اور مہاجر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔

میری ذاتی رائے میں اب پاکستان میں کوئی بھی صوبہ لسانی بنیاد یا شناخت پر نہیں بننا چاہیے۔ نئے صوبے ضرور بنیں، مگر یہ فیصلہ خالص اتنظامی بنیاد پر ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی ، لسانی تنازعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
شناخت کی مختلف سطحیں اور پرتیں ہوتی ہیں۔ایک شخص کی بیک وقت کلچرل سطح پر مہاجر، صوبائی سطح پر سندھ کی اور نیشنل سطح پر پاکستانی شناخت ہوسکتی ہے جبکہ انفرادی سطح پر مہاجر پرت کے اندر بھی میمنی، کچھی ،بہاری وغیرہ شناختیں ہوسکتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

اس بات کو اگر سمجھ لیا جائے تو بہت سے تعصبات ازخود ختم ہوسکتے ہیں۔ اس لئے مہاجر کلچر ڈے سے کسی کو خوفزدہ یا پریشان ہونے سے بے چین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ثقافتوں کو احترام کریں، اس کی سپیس دیں، اس سے باہمی محبتیں بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔

Related Posts