عمران خان کے خلاف غیر ملکی سازش: حقیقت کیا ہے؟ ( پہلا حصہ)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وہ تمام پہلو جن کے بارے میں آپ پڑھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں:

 عمران خان پچھلے چند دنوں سے ایک بیانیہ لے کر سامنے آئے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے انکشاف ستائیس مارچ کے اسلام آباد جلسہ میں کیا، تب وہ تفصیل بتانے سے گریزاں تھے تاہم آج ہمارے سامنے خاصی تفصیل موجود ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ وہ خط امریکہ میں تب پاکستانی سفیر نے بھیجا اور ایک امریکی سفارت کار نے ملاقات کے دوران انہیں یہ دھمکی آمیز پیغام دیا، وغیرہ وغیرہ۔ اس عہدے دار کا نام بھی سامنے آ چکا ہے۔

عمران خان کا بیانیہ
عمران خان کا بیانیہ اس وقت دو نکات پرمشتمل ہے۔ ان کے اور ان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش ہوئی ہے، امریکہ ان کی حکومت گرانے کے درپے ہے، وہ خط اس کا ثبوت ہے، ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امریکی سفارت کاروں نے پچھلے چند ہفتوں میں اپوزیشن رہنماﺅں اور منحرف انصافین ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں۔

ان کے بیانیہ کا دوسرا حصہ اپوزیشن سے متعلق ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اس غیر ملکی سازش کا حصہ ہے اور اسی مقصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے، انہوں نے یہ اشارہ بھی کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے فارن فنڈنگ کی گئی۔ اب تو وہ اور ان کے ساتھی اس حد تک آ گے بڑھ گئے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنے سیاسی مخالفوں کو برملا ملک دشمن اور غدار تک کہنے لگے ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس بیانیہ میں کس حد تک حقیقت ہے؟

کیا امریکہ سازش کر رہا ہے؟

سب سے پہلے تو یہ تاریخی حقیقت کہ امریکہ نے دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں تبدیل کرائی ہیں اور وہ بنیادی طور پر ایک غیر ذمے دار سپر پاور ہے جو مختلف ممالک میں کسی نہ کسی حد تک مداخلت کا عادی رہا ہے۔ اس لئے امریکہ پر ہم شبہ کر سکتے ہیں، یہ کوئی خلاف توقع بات نہیں۔

امریکی ہرگز دودھ کے دھلے نہیں، ان کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ حالیہ معاملے میں وہ انوالو ہیں یا نہیں؟۔

اس معاملے میں کم از کم یہ تو واضح ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایک نہایت نامناسب غیر سفارتی پیغام بھیجا گیا۔ ایسا جس کا کوئی جواز نہیں۔ بعض سابق سفارت کاروں نے کہا ہے کہ اس طرح کبھی غیر رسمی اور کبھی باقاعدہ طور پر دھمکی موصول ہوتی ہے، مگر ظاہر ہے اسے ناپسند ہی کیا جاتا ہے اور کئی بار سختی سے جواب بھی دیا جاتا ہے۔

اس معاملے میں یہ پہلو تو واضح ہے کہ پاکستانی سفارت کار سے ملاقات میں امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدے دار نے یہ دھمکی آمیز باتیں کہیں۔ اس پر البتہ بحث ہوسکتی ہے کہ یہ آفیشل دھمکی تھی یا اس سفارت کار کا ذاتی اظہار خیال۔

امریکہ نے باضابطہ طور پر اس کی تردید کی ہے یعنی اس دھمکی سے فاصلہ اختیار کیا ہے۔ ایسی صورت میں امریکیوں کو اپنے اس سفارت کار کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کہ اس نے بلااجازت ایسی سنگین دھمکی کیوں دی۔ پاکستان چاہے تو سفارتی چینلز سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے۔

امریکی دھمکی کس کے لئے تھی ؟
ذاتی طور پر میں ابھی تک نہیں سمجھ پایا کہ امریکہ نے پاکستانی ریاست کو دھمکی دی یا وزیراعظم عمران خان کو؟ اگر عمران خان کو دھمکی دی تو ایسا کیوں کیا گیا؟ امریکہ پاکستانی حکومت سے ناراض ہے کہ ہم نے روس کے یوکرائن پر حملے کی کھل کر مذمت نہیں کی اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے۔

امریکیوں کے نزدیک پاکستان کو یوکرائن کے معاملے پر مغرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ امریکی برہم ہو کر ہمیں دھمکانے لگے۔ بات سمجھ میں آتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ عمران خان کیوں؟۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ نیشنل سیکورٹی معاملات اور خارجہ امور میں پاکستانی سویلین وزیراعظم کس حد تک اختیار رکھتا ہے؟ یہ پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی ہیں اور سویلین وزیراعظم چاہے وہ نواز شریف ہوں، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی یا عمران خان، یہ سب اسے اون کرتے ہیں، مگر اسے ڈکٹیٹ کرانے کی قوت نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی نیشنل سیکورٹی پالیسیوں پر اسٹیبلشمنٹ کی اتھارٹی کو تبدیل نہیں کرا پائی تھیں۔

اس تناظر میں یہ دھمکی عمران خان کو کیوں دی گئی ؟روس جانا ان کا اپنا فیصلہ نہیں تھا، اس میں اسٹیبلشمنٹ کی اِن پٹ شامل تھی۔ اس دورے کے سلسلہ میں چینی تعاون شامل تھا، انہوں نے اس دورہ کی ڈیٹ پاکستان کو دلائی، افسوس کہ بعد میں حالات ایسے بن گئے تھے کہ پاکستان کا نہ جانا بھی مشکل تھا اور جانا بھی۔

سوچ بچار کے بعد متفقہ فیصلہ ہوا اور وزیراعظم عمران خان وہاں گئے۔ ایسا نہیں کہ امریکی اس سب کچھ سے واقف نہیں ہوں گے۔ وہ پاکستان پاور سینٹرز کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں طویل تجربہ ہے اسلام آباد اور پنڈی سے ڈیلنگ کا۔ میرے لئے یہ سوال ہے کہ عمران ہی کیوں؟۔

دھمکی پھر کس کے لئے تھی
میری ذاتی رائے میں یہ دھمکی حکومت پاکستان یا وزیراعظم کے بجائے ریاست اور ریاستی اداروں کے لئے تھی۔ اس لئے کہ نیشنل سیکورٹی پالیسیاں انہوں نے بنانی ہیں، وہی اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

اس ملفوف یا کھلی دھمکی (چونکہ وہ مراسلہ ہم نے نہیں پڑھا، اس لئے اس کی نوعیت یا شدت کا حتمی اندازہ نہیں) میں پاکستانی ریاست کو یہ چتاونی یا تنبیہہ دی گئی کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے، نہایت ناپسندیدہ ہے۔ اس میں البتہ ایک طرح کی رعایت بھی شامل ہے کہ ہمارے علم میں ہے کہ تحریک عدم اعتماد پاکستان میں آرہی ہے، اگر حکومت بدل جائے تو ہم اس سب کچھ کو بھول جائیں گے۔ یعنی معنی خیز اشارہ کیا گیا کہ ہم (حقیقت کو جانتے بوجھتے بھی) سب کچھ جانے والے وزیراعظم پر ڈال کر اسے بھلا دیں گے۔ آپ آئندہ خیال رکھیں اور اپنی پالیسی ٹھیک کرلیں یعنی مغرب کے ساتھ کھڑے ہوں، اگر اپنے لئے معاشی مسائل وغیرہ نہیں چاہتے تو۔

کیا امریکی سازش میں ملوث ہیں ؟
یہ سب سے اہم سوال ہے۔ عمران خان نے براہ راست امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ میری حکومت سے نجات پانے کے لئے یہ سازش کر رہے ہیں اور انہوں نے پاکستان میں آلہ کار بنائے ہیں۔ ان کا اشارہ ظاہر ہے اپوزیشن لیڈروں کی طرف ہے۔ میرا سوال پھر وہی ہے کہ عمران خان یا کوئی بھی سویلین وزیراعظم اس قدر طاقتور کیسے ہوگیا کہ امریکہ جیسی عالمی قوت اس سے نجات پانے کی خواہش کرے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ سازش بھی کرگزرے۔

دوسرا سوال یہ کہ اگر امریکی پاکستان میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہوں تب بھی ان کے لئے آسان طریقہ یہ تھاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست بات کرتے، ان پر دباﺅ ڈالتے کہ اپنے ملک کے لئے خیر چاہتے ہو تو اسے چلتا کرو۔ خاص کر موجودہ صورتحال میں جب عمران خان بمشکل آٹھ دس ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعظم تھے۔

ان کی حکومت تین ایسے اتحادیوں کی بیساکھی پر قائم تھی جو سو فی صد اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک اشارے پر ق لیگ، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی الگ ہوجاتے۔ یہ تینوں مل کر سترہ ارکان بنتے ہیں،اس سے فوری طور پر عمران خا ن کی اکثریت ختم ہوجاتی اور لمبے چوڑے کھیل کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ ق لیگ تو ابھی تک عمران خان کی اتحادی ہے بلکہ اس وقت وہ پنجاب میں عمران کی واحد امید بنی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم سے پیپلزپارٹی نے طویل مذاکرات کئے اور بہت سی لالچ، پیش کشیں کر کے انہیں توڑا۔ باپ سے بھی لمبے چوڑے لانجھے چلتے رہے اور ایک رکن آخر تک عمران خان کی حامی رہی، حالانکہ ان کی شہرت ہی این جی او زکے زیراثر ہونے کی ہے۔

کیا اپوزیشن سازش میں شریک ہے ؟
یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ میرے خیال میں جواب نفی میں ہے کیونکہ میں اتنے بڑے الزام کے لئے بہت ہی مضبوط اور ٹھوس ثبوت چاہوں گا۔ میرے نزدیک یہ ناممکن ہے کہ تحریک انصاف کے سوا ملک کی تمام جماعتوں کا اپوزیشن اتحاد ملک دشمن اور غیر ملکی قوت کا آلہ کار ہے۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یوآئی، اے این پی، تمام بلوچ پشتون قوم پرست جماعتیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب کیسے ملک دشمن ہوسکتی ہیں؟ جن پارٹیوں کے ملک میں بے شمار اسٹیک ہیں جو پچھلے تیس چالیس برسوں میں ملکی سیاست چلاتی آئی ہیں، انہوں نے ہی فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد کی ، جیلیں بھگتیں ، سزائیں کاٹیں۔

یہی اپوزیشن لیڈر ہیں جنہوں نے ملک میں بڑے منصوبوں کی بنیاد ڈالی، موٹر وے سے لے کر مختلف پراجیکٹس تک۔ جنہوں نے سی پیک کی منصوبہ بندی کی، اس گیم چینجر منصوبے کو شروع کیا، آگے بڑھایا، چینیوں کی حوصلہ افزائی کی، روس، چین، امریکہ، ترکی، سعودی عرب، ایران وغیرہ کے ساتھ بیک وقت تعلقات چلائے۔

ان کے انداز حکومت پر تنقید ہوسکتی ہے۔ میں ان سب کا ناقد رہا ہوں۔ ان کی حکومتوں اور وزیروں کی شفافیت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، بہت سے کرپشن اسکینڈلز بھی ہیں، مگر اس طرح اچانک انہیں غیر محب وطن اور غدار کہنے کے لئے غیر معمولی دیدہ دلیری ، ڈھٹائی اور احمقانہ جرات درکا ر ہوگی۔

کیا تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کے خلاف ثبوت نہیں
(اس اہم نکتہ پر ان شااللہ کل بات کرتے ہیں)

Related Posts