عیدالاضحیٰ اور قربانی کے مسائل پر مفتی محی الدین احمد منصوری سے گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عیدالاضحیٰ اور قربانی کے مسائل پر مفتی محی الدین احمد منصوری سے گفتگو
عیدالاضحیٰ اور قربانی کے مسائل پر مفتی محی الدین احمد منصوری سے گفتگو

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے، اس موقعے پر ایم ایم نیوز نے مفتی محی الدین احمد منصوری سے قربانی کے مسائل سمیت دیگر اہم امور پر خصوصی گفتگو کی۔

مفتی محی الدین احمد منصوری پاکستان کے ممتاز عالمِ دین اور دینی مسائل کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں جن سے قربانی کے مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کا  احوال نذرِ قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز: دینِ اسلام میں قربانی کی اہمیت اور فضیلت کیا ہے؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: سب سے پہلے پروگرام میں دعوت دینے پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ قربانی بڑی عظیم عبادت اور نیکی کا کام ہے۔ ذی الحج کے 10 ایام انتہائی فضیلت کے حامل ہیں جن میں عبادت کی بڑی اہمیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان 10 روز میں اگر کسی نے روزہ رکھا تو اس کے گزشتہ اور آئندہ 1 سال کے روزوں کا ثواب عطا کیا جائے گا اور جس نے رات کو عبادت کی، گویا اس نے شبِ قدر میں عبادت کی۔

کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ کی خوب عبادت کی جائے۔ قربانی ایک بڑی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی بہترین عمل ہے۔ اللہ کے حبیب ﷺ فرماتے ہیں کہ صدقات میں سے بہترین صدقہ وہ ہے جو قربانی کے دنوں میں جانور کی صورت میں ذبح کیا جائے۔ قربانی کرنا واجب ہے جس کی یہی دلیل کافی ہے کہ رحمت اللعالمین ﷺ جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت کر رہے تھے، اس سال سے آخری سال تک آپ نے کسی برس قربانی ترک نہیں کی۔ انتہائی ذوق و شوق سے قربانی کرتے تھے۔اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کتنی ضروری ہے۔ قرآنِ پاک میں سورۃ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو قربانی کا کہا۔

ایم ایم نیوز: کہا جاتا ہے کہ قربانی نہ کریں یا پھر کم پیسوں میں کریں اور باقی پیسوں سے غریبوں کی مدد کریں ، اس حوالے سے شریعت کیا کہتی ہے؟

مفتی محی الدین منصوری: یہاں یہ مسئلہ ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے سے بہتر یہ ہے کہ غریبوں اور مسکینوں کو رقم دی جائے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور یہ انتہائی نامناسب ہے۔ اسلام غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کیلئے صدقہ کرنے کا درس دیتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی جیسی عظیم عبادت چھوڑ کر اس کی جگہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کو ترجیح دی جائے۔ انہیں دینا حق بنتا ہے لیکن اس فرضیت کے مقابلے میں کیوں؟ حدیث کے منکر لوگ ایسی گفتگو سے لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل جائز نہیں کہ آپ پر قربانی واجب ہوجائے اور قربانی پھر بھی نہ کی جائے۔

ایم ایم نیوز: قربانی کرنا کس پر واجب ہے؟ کیا قربانی کرنے سے نیکیاں ملتی ہیں؟ اس عمل کا کتنا ثواب ہے؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: جس پر زکوٰۃ واجب ہو، اس پر قربانی بھی واجب ہوجاتی ہے۔ قربانی کے حوالے سے نہ صرف اللہ کے حبیب ﷺ نے ترغیب دی بلکہ وعیدیں بھی فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس پر قربانی واجب ہو اور وہ یہ نہ کرے تو عید گاہ میں بھی نہ آئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے بدلے جانور کے ایک ایک بال کے بدلے ایک ایک نیکی عطا کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی عبادت ہے جس میں کوئی چھوٹ نہیں۔ جسے اللہ نے توفیق دی ہے، وہ ضرور قربانی کرے۔

صحابہ کرام نے محسنِ انسانیت ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ قربانی کرنی چاہئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی ہمارے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ پھر صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس قربانی سے ہمیں نیکیاں ملیں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانور کے ایک ایک بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی جس سے قربانی کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا قربانی کرنا فرض ہے؟ کیونکہ بہت سے صاحب استطاعت لوگ یہ کہہ کر قربانی نہیں کرتے کہ قربانی فرض نہیں ؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: قربانی کرنا واجب ہے۔ جسے اللہ نے توفیق دی ہو، جو صاحبِ استطاعت اور صاحبِ نصاب ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ جو نہ کرے، اس کیلئے سخت وعیدیں ہیں۔ اس لیے قربانی سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی۔

ایم ایم نیوز: کیا خواتین قربانی کرسکتی ہیں؟ کیونکہ زیادہ تر تو مرد حضرات ہی قربانی کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا خواتین جانور خود بھی ذبح کرسکتی ہیں؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: جس طرح مردوں پر قربانی کرنا واجب ہے، اسی طرح صاحبِ استطاعت خواتین پر بھی قربانی واجب ہے۔ خواتین مالدار ہوں تو ان پر بھی ہوبہو اسی طرح قربانی واجب ہے کیونکہ قربانی عبادت ہے اور عبادت مرد اور خواتین دونوں کیلئے ہوتی ہے۔

بہترین عمل یہ ہے کہ خواتین اپنے ہاتھ سے اگر جانور کو ذبح کرسکتی ہوں تو ضرور کریں۔ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے ہر مسلمان مرد اور عورت کو خود قربانی کے جانور کو ذبح کرنا چاہئے۔

رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ جب قربانی کا جانور ذبح کیا جائے تو آپ کو وہاں موجود ہونا چاہئے کیونکہ ذبح کیے گئے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ مغفرت کا فیصلہ فرماتا ہے۔ یہ بے حد سعادت کی بات ہے۔ اگر کوئی کم ظرف یہ کہے کہ قربانی سے بہتر یتیم اور مسکین کو دینا چاہئے تو یہ عبادت کو جھٹلانے والی بات ہے۔ ضرورت سے زائد قیمتی گاڑیاں خریدتے ہوئے تو یتیم اور مسکین یاد نہیں رہتے، قربانی کا جانور خریدنے سے قبل یتامیٰ اور مسکینوں کو یاد کیوں کیا جاتا ہے؟ شریعت اور دین کی بات پر ایسی باتیں یاد آنا انتہائی قابلِ مذمت عمل ہے جو انسانی سوچ کا فتور قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز: اگر گھر میں ایک ہی قربانی ہورہی ہے تو اس کے کتنے حصے کیے جاسکتے ہیں؟ حصہ کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: گوشت کی تقسیم کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اس کے 3 حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ خود کھائے، دوسرا غریب غرباء جبکہ تیسرا رشتہ داروں میں تقسیم ہونا چاہئے۔ بعض لوگوں کے رشتہ دار اتنے ہوتے ہیں کہ غربا کو نہیں دے سکتے تو اس میں بھی کوئی ہرج نہیں، تاہم کوشش یہ ہونی چاہئے کہ غربا اور مساکین کا خیال رکھا جائے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں صرف 1وقت کا کھانا رکھتے تھے اور باقی تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ بعض حضرات کی توجہ فریج بھرنے پر ہوتی ہے۔ غریبوں کا دھیان نہیں رکھاجاتا۔ قربانی پھر بھی ہوجاتی ہے لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ اپنے آپ کو نہیں بلکہ معاشرے کا بھی ساتھ دیا جائے۔ پسے ہوئے طبقات کا خیال رکھا جائے اور ان کی داد رسی کی جائے۔

اگر واقعی گھر کے اتنے مہمان اور لوگ ہیں کہ باہر تقسیم کرنے سے مسئلہ ہوتا ہے تو شریعت آپ کو اس کی اجازت دیتی ہے کہ قربانی کا گوشت پر ہی استعمال کر لیا جائے، کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جتنا ہوسکے غریبوں کا خیال رکھا جائے۔

قربانی کے جانور کے حصے کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ بڑے جانور کے 7 حصے کیے جاتے ہیں۔بکرے کا 1 حصہ ہوتا ہے، دیگر جانوروں کے 1 سے 7 تک جتنے حصے کرنا چاہیں، کیے جاسکتے ہیں۔ 7 سے زائد حصے نہیں کیے جاسکتے۔

ایم ایم نیوز: کس کس کے نام پر قربانی کی جاسکتی ہے؟ کیا مرحومین کے نام پر قربانی کرنا جائز ہے؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرحومین کے نام پر قربانی نہیں کی جاسکتی تاہم شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ والدین کیلئے اور دیگر رشتہ داروں، دادا، دادی اور نانا نانی وغیرہ کیلئے قربانی کی جاسکتی ہے۔ قربانی کو عبادت سمجھا جائے اور اللہ کے حضور قبولیت کیلئے دعا کی جانی چاہئے۔

ریا کاری بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ ہماری شریعت بہت سخت نہیں ہے۔ یہودیوں کا مذہب سخت اور مسیحیوں کا بہت آسان رہا ہے۔ یہاں لوگ قربانی کا جانور لا کر اسے پورے علاقے میں گھما کر چوہدری صاحب بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرف توجہ نہیں ہونی چاہئے۔ اخلاص ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ ریاکاری نے مسلمانوں کو تباہ کردیا۔ نیکی بھوسہ اور ریاکاری آگ ہے جو اسے جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ عبادت کم بھی ہو تو اس کی حفاظت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ عبادت کو ہر حال میں ریاکاری سے محفوظ رکھیں۔

ریاکاری سے بچنے کیلئے میانہ روی اختیار کریں۔ کہنا چاہئے کہ اے اللہ اگر مجھے ریاکاری کا خوف نہ ہوتا تو میں اوسط درجے کا جانور خریدنے کی بجائے زیادہ اعلیٰ جانور خرید کر قربانی کرتا، لیکن میں نمودونمائش سے بچنے کیلئےایسا کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ یہ بات پسند فرماتا ہے اور قربانی کو قبول کرتا ہے۔

ایم ایم نیوز: قرض لے کر قربانی کرنا کیسا عمل ہے؟ کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟

مفتی محی الدین احمد منصوری: قرض لے کر قربانی کرنے کے حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قربانی صاحبِ استطاعت افراد پر واجب ہے تو جس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے، گھر میں مفلسی ہے یا اتنا پیسہ موجود نہیں کہ جانور لیا جاسکے تو قرض لے کر قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ جس پر زکوٰۃ واجب ہو اس پر قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔ جس کے پاس مال ہولیکن وہ بینک میں پھنسا ہوا ہو یا پھر وہ سونے کی صورت میں ہو، پھر ایسا شخص قرض لے کر قربانی کرسکتا ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ مالدار ہے۔ اگر ایسی صورت نہیں ہے تو ایسے لوگوں کو قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے قربانی کے مسائل پر گفتگو کا موقع دیا، اس کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں: سینماء کی رونقیں بہت جلد دوبارہ بحال ہوجائینگی، ندیم مانڈوی والا

Related Posts