سورۂ لقمان کی نصیحت بھری آیات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سورۂ لقمان قرآنِ پاک کی 31 ویں سورت ہے جس میں 34 آیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سورۂ مبارکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے مکی دور کے وسط میں نازل کی، یعنی یہ ایک مکی سورت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ لقمان کا نام حضرت لقمان کے اسم سے موسوم فرمایا جو بے حد عقل مند انسان تھے۔

سورۂ لقمان کی آیت نمبر 12 سے 19 تک ان نصیحتوں کا ذکر ملتا ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کیں۔ یہ 10 نصیحتیں ہیں جو حضرت لقمان اپنے بیٹے کو زندگی میں اور محشر کے روز کامیاب ہونے کیلئے کرتے ہیں اور یہ ایسی نصیحتیں ہیں جو آج کے دور کے ہر انسان کیلئے بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہیں۔

“اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک مت کرنا۔ بے شک اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا گناہِ عظیم ہے۔” (سورۂ لقمان، آیت 13)۔ لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے سے مخاطب ہونے کیلئے “اے میرا بیٹا” کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں اور اِس طرح بیٹے کا نام نہ لینے سے 2 مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ باپ اور بیٹے کے خونی رشتے کو واضح کیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ اپنے بیٹے کی توجہ حاصل کی جائے تاکہ وہ ان نصیحتوں کو توجہ سے سنے جو حضرت لقمان فرما رہے تھے۔

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ جو شخص خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک کرتا ہے یا کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھتا ہے وہ دنیا میں سب سے غلط یا سب سے زیادہ ناانصافی پر مبنی کام کرتا ہے کیونکہ یہ گناہِ عظیم کائنات کے خالق اور پروردگار کے ساتھ کیا جارہا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایسا شخص خود اپنے ساتھ بھی گناہِ عظیم کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور لامتناہی سزا کے سامنے کھڑا کر لیتا ہے۔

اگلی نصیحت آیت نمبر 14 میں موجود ہے: “اور ہم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کی عزت کریں۔ ان کی ماؤں نے ان کا (جنم دینے سے قبل) بوجھ ایک کے بعد ایک مشکل سے اٹھایا جبکہ انہیں دودھ پلانے کی مدت 2 سال پر محیط ہے۔

تو تم ہمارے اور اپنے والدین کے شکر گزار رہو اور ہماری طرف ہی تمہیں حتمی طور پر واپس آنا ہے۔”  لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو بتاتے ہیں کہ والدین کے حقوق اللہ کی عبادت کی طرح اہم ہیں اور اسلامی طرزِ حیات میں والدین کا احترام بے حد اہم ہے۔

اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ ماؤں کی مشکلات کی وضاحت فرماتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب مائیں اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتی ہیں اور حکم دیتا ہے کہ بچہ اپنے والدین کا شکر گزار رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور نتیجتاً ہماری پہلی وفاداری صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیلئے ہے جس کے بعد اپنے والدین کیلئے جانثاری اور ہمدردی ہمارا دوسرا اہم ترین فریضہ ہے۔

تیسری نصیحت آیت نمبر 16 میں بیان ہوتی ہے: “اے میرے پیارے بیٹے! چاہے کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر، کسی چٹان میں یا پھر آسمان و زمین میں (کسی بھی جگہ) چھپا ہوا ہو، اللہ اسے (تمہارے) سامنے لے آئے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی حکمت والا اور ہر شے سے واقف ہے۔” حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوت یاد دلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل ترین ہے اور جو کچھ بھی ہوتا یا ہونا ہوتا ہے، پہلے سے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔

آیت نمبر 17کا پہلا حصہ چوتھی نصیحت پر مشتمل ہے: “اے میرے پیارے بیٹے! نماز ادا کیا کرو۔” حضرت لقمان نے نہ صرف اپنے بیٹے کو نماز بر وقت اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا بلکہ اس کے ارکان مکمل کرکے ادائیگی کو یقینی بنانے کی بھی نصیحت کی۔ نماز کیلئے عربی میں صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب تعلق ہے اور اس طرح نماز یا صلوٰۃ اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلقات مضبوط و مستحکم رکھنے کا ذریعہ ہے۔

پانچویں نصیحت آیت نمبر 17 کے دوسرے حصے میں موجود ہے: “نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔” جبکہ اچھی بات کی حوصلہ افزائی اور برائی سے روکنا ہر ایمان والے کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور ہمت کے مطابق یہ کام ضرورکرے۔

چھٹی نصیحت آیت نمبر 17 کے اگلے حصے میں ہے: “جو کچھ بھی تمہیں (نیکی کے راستے میں) بھگتنا پڑے، خندہ پیشانی سے برداشت کرو، بے شک یہ وہ عہد ہے جس کی تمہیں پاسداری کرنی ہے۔” لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ نماز، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے کاموں سمیت زندگی کے تمام تر معاملات میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔

ساتویں نصیحت کا پہلا نصف حصہ ہمیں آیت نمبر 18 میں ملتا ہے: “اور لوگوں کے سامنے اپنی ناک اونچی مت کرنا۔” حضرت لقمان علیہ السلام بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ غرور سے بچے جبکہ منکسر المزاجی کسی بھی شخص کی سب سے بہترین خوبی ہوتی ہے، یہ خاکساری ہمیں جنت کی طرف جبکہ غرور ہمیں جہنم کی طرف دھکیلتا ہے۔ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کبھی دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے غروروتکبر کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ انکسار نبئ کریم ﷺ کی اہم صفت ہے۔

آگے اسی آیت نمبر 18 میں ہی ہمیں آٹھویں نصیحت ملتی ہے: “زمین پر کبھی اکڑ کر مت چلنا، بے شک اللہ تعالیٰ کسی مغرور اور شیخیاں بگھارنے والے شخص کو پسند نہیں فرماتا۔” فخر و غرور اور بد تمیزی سے چلنا تکبر کی ایک اور قسم ہے۔ ایک بار پھر حضرت لقمان انکسار کی اہمیت بیان فرما رہے ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں برابر ہیں اور برتری کا معیار صرف تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔

نویں نصیحت ہمیں آیت نمبر19 کے پہلے جملے میں ملتی ہے : “اپنی رفتار معتدل رکھو۔” حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہیں کہ صبر اور انکسار کسی بھی شخص کا ایک عام کردار اور رویہ بن جانا چاہئے۔

آخری نصیحت ہمیں آیت نمبر 19 کے اگلے حصے میں نظرآتی ہے: “اور اپنی آواز نیچی رکھو، کیونکہ تمام تر آوازوں میں سے بد ترین آواز گدھے کی ہے۔” حضرت لقمان علیہ السلام نے بیٹے کو سمجھایا کہ اونچی آواز میں اور بد تمیزی سے بات کرنا ایک بے ہودہ عادت ہے جو لوگوں کو آپ سے متنفر اور الگ کرتی ہے۔

پروردگارِ عالم کی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید میں سورۂ لقمان ایک مختصر مگر طاقتور قصہ ہے جو مسلمانوں کو تقلید کیلئے عظیم مثال پیش کرتا ہے لیکن اس میں حقیقی زندگی میں قابلِ عمل نصیحتیں بھی موجود ہیں جنہیں ہم اپنا طرزِ حیات سنوارنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔

حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرماتے ہیں وہ ہمارے نوجوانوں کو زندگی میں بہتر انسان بننے کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔

Related Posts