موٹر وے زیادتی کیس کو معاشرے کیلئے مثال بنایا جائے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور موٹروے پراجتماعی عصمت دری کے گھناؤنے واقعہ کا اصل ملزم ایک ماہ فرار رہنے کے بعد زیر حراست ہے اور ملزم کی گرفتاری کے معاملے پر ایک نیا تنازعہ سامنے آگیا ہے کہ ملزم کو پنجاب پولیس نے پکڑا ہے یا اس نے خود گرفتاری دی ہے۔

ملزم کی گرفتاری خوش آئند ہے لیکن ابھی ہمیں بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ قانون کو لازمی طور پر اپنا راستہ اپنانا چاہئے اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔ مجرموں کو مثالی سزا دی جانی چاہئے۔ اب ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ پر ہے کہ اس معاملے کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔

پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف خواتین بلکہ تمام شہریوں کے لئے معاشرے کومحفوظ بنائیں۔ واقعہ کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے پولیس اہلکاروں کے لئے انعام کا اعلان کیا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرائض کی ادائیگی پر انعام کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ جنسی زیادتی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی اور نوعمر بچیوں اور عمر رسیدہ خواتین کوباقاعدگی سے اس طرح کے واقعات کا شکار بنایا جارہاہے۔

موٹروے کے واقعے نے ہمارے معاشرے کو بے نقاب کردیا ہے ، ہم نے عصمت دری کے واقعہ کے بعد دیکھا کہ کس طرح متاثرہ خاتون کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

سی سی پی او لاہور کے ریمارکس اور ناقابل فراموش طرز عمل ایک مثال ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ خواتین کتنی کمزور ہوسکتی ہیں اور مرد ایسے حالات میں ان سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس معاملے نے ریاستی سنسرشپ کی حد کو بھی اجاگر کیا کیونکہ میڈیا کو اس واقعے کی کوریج سے صرف اس لئے روکا گیا تھا کہ اس سے منفی تاثرجاتا ہے۔

یہ پابندی صرف اس ملزم کو پکڑنے کے بعد منسوخ کردی گئی تھی لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کے احکامات کے ذریعہ میڈیا کو کس طرح دبایا جاسکتا ہے۔

کیس کا مرکزی ملزم گرفتار ہوچکا ہے تاہم اب بھی پولیس میں اصلاحات پر کام کرنا ضروری ہے جس میں حکومت ناکام رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم ایک ایسی سوسائٹی بنائیں جہاں پولیس اپنے فرائض کی درست ادائیگی یقینی بناکر معاشرے کو ایسے ناسوروں سے پاک کرے تاکہ انسانوں کیلئے محفوظ معاشرے قائم ہوسکے۔

Related Posts