حضرت ذوالقرنینؑ کی زندگی سے سبق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کا ذکر ہمیں قرآنِ پاک کی سورۂ کہف میں ملتا ہے اور خدا کی اس برگزیدہ ہستی کی شناخت کے متعلق یہ ذکر بہت تجسس پیدا کرتا ہے۔ اس حوالے سے قیاس آرائیاں ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں ان کی زندگی سے کچھ نہ کچھ سبق حاصل کرنا ہوگا۔

حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین کی داستانِ حیات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اس سرمین کی کنجی عطا کی جو بالآخر حکمرانی کا باعث بنی اور اللہ کے برگزیدہ پیغمبر یوسف علیہ السلام وزیرِ خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو بھی اقتدار عطا فرمایا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے اس (حضرت ذوالقرنین) کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔

اللہ تعالیٰ کبھی کبھی لوگوں کو بے بسی سے آزماتا ہے۔ مثلاً اصحابِ کہف کی زندگی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی داستانِ حیات ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وسائل اور دولت یا سیاسی طاقت دے کر حضرت ذوالقرنین کی بھی آزمائش فرمائی۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وسیع پیمانے پر مثبت تبدیلی لانے کیلئے انبیاء و صالحین کو وسائل فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور کامیابیوں کا استعمال دوسروں کیلئے کرنا بھی ایک اہم نیکی ہے۔

سورۂ کہف کی آیت نمبر 86 تا 88 میں ارشاد ہوتا ہے کہ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور اسے وہاں ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا کہ اے ذوالقرنین، تجھے یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے۔

اس نے کہا ان میں سے جو ظلم کرے گا، ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کیلئے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔

غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کے ذریعے ہمیں سکھایا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے جنہیں ہم نہیں جانتے۔ کسی شخص یا لوگوں کے ایک گروہ کے متعلق دقیانوسی تصور یا برا سجھنے اور سختی سے پیش آنے کی بجائے ہمیں حسنِ سلوک کرنا ہوگا جبکہ سزا غلط کام کرنے والوں کا مقدر ہونی چاہئے۔

اسی طرح حضرت ذوالقرنین عدل و انصاف کی قائدانہ خصوصیات کے حامل رہے۔ نیز، ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو ایک اہم وسیلہ اور صلاحیت عطا کی کہ وہ سلطنت کو وسعت دینے کیلئے درست لوگوں کو تلاش کرسکتے تھے جبکہ لوگوں کی صحیح تحقیق کرسکیں۔

یہی سبق دنیا کی موجودہ زندگی کیلئے بھی سچ ثابت ہوتا ہے۔ بہت سی تنظیموں کی قیادت کسی اچھے کام کو ترویج دینے کی بجائے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر توجہ دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کامیابی امتحان بن جایا کرتی ہے۔ بدعنوان لوگوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بجائے ہمیں اپنا ہوم ورک کرکے ایسے لوگوں سے نمٹنا ہوگا۔

آگے چل کر سورۂ کہف کی آیت نمبر 92 تا 94 میں ارشاد ہوتا ہے کہ پھر اس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا۔ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے ہی کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین، یاجوج و ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم آپ کے کچھ خرچ کا بندوبست کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کردیں؟

ہم جانتے ہیں کہ حضرت ذوالقرنین اچھے سیاح تھے، آپ نے بہت سی زبانیں سیکھیں۔  اس کے باوجود ان کی شخصیت کی لچک بیان کی جارہی ہے اور سمجھایا جا رہا ہے کہ جب ہم کسی نئے منصوبے تک پہنچیں یا نئے لوگوں کی خدمت کریں تو ہمیں چاہئے کہ اپنی بے حسی کو ایک طرف رکھ دیں۔ ان لوگوں کی بات سنیں جن کی ہم خدمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ لوگ ہی اپنی ضروریات کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔

حضرت ذوالقرنین اپنی سلطنت سے اپنے وسائل اور محنت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کیلئے دیوار بنانے کی بجائے ان لوگوں سے دیوار بنانے میں مدد کیلئے کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے جو کچھ دیا ہے، وہ اس سے کہیں بہتر ہے لیکن وسائل کے ساتھ میری مدد کرو اور میں تمہارے اور ان کے درمیان رکاوٹ پیدا کروں گا۔

میرے لیے لوہے کے ٹکڑے لاؤ۔ پھر جب دونوں پہاڑوں کے مابین خلا کو پر کردیا تو حکم دیا کہ پھونک مارو۔ جب لوہا سرخ ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ اس پر ڈال دوں۔ (سورۂ کہف، آیت نمبر 95 تا 96)۔

جناب ذوالقرنین علیہ الرحمۃ نے دیوار کی تعمیر کیلئے ٹیکنالوجی اور مہارت مقامی لوگوں کو منتقل فرمائی تاکہ مقامی لوگ ان کے احسان مند ہوں۔ یہ لوگوں کو بااختیار بنانے کے متعلق ایک قیمتی سبق سمجھا جاسکتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو علم و ہنر بخشا، اسے دوسروں کو سکھا کر انہیں بااختیار کرنا ہماری کامیابی کو کم نہیں کرتا۔ دوسروں کے ساتھ علم اور حکمت پر مبنی مشاورت سے ہم بہترین وسائل تیار کرسکتے ہیں جن کو انسانی وسائل کا نام دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ذوالقر نین نے بھی ہمیشہ کیلئے مقامی لوگوں کی وفاداری و شکر گزاری حاصل کی جس سے ہمیں بھلائی کے ذریعے جیت کا سبق سکھایا گیا۔

پھر سورۂ کہف کی آیت نمبر 97 تا 98 میں حضرت ذوالقرنین کی بنائی گئی رکاوٹ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ پھر ان (یاجوج ماجوج) میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں۔ (حضرت ذوالقرنین نے) کہا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ پھر جب میرے رب کا وعدہ آن پہنچے گا تو اس کو ڈھا کر ہموار کردے گااور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔

یہاں ہمیں یہ سمجھایا گیا کہ تمام تر کامابیوں اور کامرانیوں کا اصل سرچشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے۔ ہر چیز کی طرح ہماری کامیابیاں بھی ایک روز فنا ہوجائیں گی اور ایک یومِ حساب آئے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سب سے وعدہ فرمایا ہے۔

اللہ کے برگزیرہ ولی حضرت ذوالقرنین کی کہانی گڈ گورننس کے نمونے کے طور پر بھی دیکھی جاسکتی ہے جس کا اطلاق ہم اپنی قیادت پر کرسکتے ہیں۔ یہ کہانی ہمیں سخاوت، لوگوں کو بااختیار بنانے اور بہتری، مضبوط دفاع، ٹیم ورک، مؤثر منصوبہ بندی اور مؤثر قیادت سمیت بے شمار سبق سکھاتی ہے۔ 

Related Posts