نریندر مودی کی کشمیر سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس ناکام کیوں ہوئی ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی نئی دہلی میں کل جماعتی کانفرنس کے نام پر مقبوضہ کشمیر کے 4سابق وزراعلیٰ سمیت 14سیاسی رہنماؤں سے3گھنٹے کی ملاقات کے بعد کسی بڑے فیصلے کا اعلان سامنے نہیں آیا جبکہ اس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی قیادت نے بھی مقبوضہ وادی کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کردیاہے۔

بھارتی وزیر اعظم نے نئی دہلی میں مقبوضہ کشمیر کے چار سابق وزراعلیٰ سمیت 14سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی،اس ملاقات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت سابق وزرا ئےاعلیٰ میں فاروق عبداللہ،ان کے بیٹے عمرعبداللہ،محبوبہ مفتی اورغلام نبی آزاد شامل ہیں تاہم اس نام نہاد کل جماعتی کانفرسن میں حریت قیادت کو نظر انداز کیاگیا جبکہ ان میں سے بیشتر نظر بند ہی رہے،تمام رہنماؤں نے ریاست کی بحالی کا مطالبہ کیا جس پر نریندرمودی کاکہنا تھا کہ حلقہ بندی کا عمل پہلے ،باقی دیگر امور بعد میں ہوں گے۔

بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 35 اے اورآرٹیکل 370 کو سبوتاژ کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کردی تھی تاہم یہ بات واضح ہے کہ بھارتی حکومت کا کشمیر کی خودمختاری کو کالعدم قرار دینے کا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے، بھارتی فوج کی جانب سے ناکہ بندی ابھی بھی برقرار ہے اور انسانی حقوق کی پامالی بلا روک ٹوک جاری ہے۔

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے امریکا خطے میں تناؤ کم کرنے کا خواہاں ہے اور امریکا کے دباؤ کے زیر اثر ہی بھارت پاکستان کیساتھ سیزفائر اور کشمیر کے حوالے سے اقدامات پر تیار ہوا ہے۔

ایک طرف بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف پاکستان کیساتھ معاملات حل کرنے کیلئے بھی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے تاہم نریندر مودی نے توقعات کے برعکس کشمیر کے حوالے سے فوری کوئی فیصلہ کرنے سے انکار کرکے امن کی راہ کو ایک بار پھر کھوٹا کردیا ہے۔

بھارت پر انسانی حقوق اور دیگر امور پر حقیقی دباؤ رہا ہے،جنوبی ایشیا کے لئے قائمقام امریکی معاون وزیر خارجہ، ڈین تھامسن نے رواں ماہ کانگریس کے سامنے کہاتھاکہ واشنگٹن نے بھارت سے کشمیر میں جلد از جلد معمول پر آنے کی اپیل کی تھی۔

نریندرمودی کا کہنا ہے کہ حلقہ بندی تیز رفتاری سے ہو تاکہ جلدانتخابات ہوسکیں،مقبوضہ کشمیر میں نچلی سطح پر جمہوریت کو مستحکم بنانا ہے،جلد الیکشن ہوں تاکہ ایک منتخب حکومت ہو۔ملاقات میں شرکا نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ اٹھایا، مرکزی وزیر امیت شاہ نے کہ حلقہ بندی اور پرامن انتخابات ریاست کی بحالی کیلئے اہم سنگ میل ہے۔

پاکستان بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کا خواہاں تو ہے لیکن پاکستان نے بھارت کیساتھ بات چیت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کی شمولیت سے مشروط کررکھی ہے اور بھارت کو بھی اس بات کا پورا ادراک ہے کہ جب تک کشمیر گفتگو کا حصہ نہیں بن جاتا، پاکستان بات کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔

کشمیر قیادت کا بھی یہی کہنا ہے کہ 5اگست 2019کے بعد مقبوضہ کشمیر کے لوگ بہت مشکلات میں ہیں اور جذباتی طور پر بکھرے ہوئے ہیں اور بھارتی حکومت کا فیصلہ قبول کرنے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔اس لئے بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے اور پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کی میز پر آئے تاکہ خطے میں امن کواستحکام دیا جاسکے۔

Related Posts