عدلیہ کہانی ٹو: سات دن جنہوں نے بہت کچھ بدل ڈالا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عدلیہ کہانی کے پہلے حصے میں ان فیکٹرز کا جائزہ لیا جن کے باعث وزیراعظم نواز شریف اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مابین مسائل اور اختلافات شروع ہوئے تھے۔ ان میں تیرویں آئینی ترمیم کا عمل دخل نہیں تھا کہ اس کی منظوری کے کئی ماہ بعد یہ مسائل پیدا ہوئے۔
تین بڑی وجوہات تھیں۔
آغاز کہاں سے ہوا؟
سب سے پہلا واقعہ فیصل آباد کا تھا، جس میں وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیس گریڈ کے افسر کو کھلی کچہری میں ڈانٹا اور اس قدر غصہ ہوئے کہ اسے فوری ہتھکڑیاں لگوا دیں۔ یہ ہر اعتبار سے غیر قانونی اور غلط تھا، بغیر مقدمہ درج کئے کسی کو ہتھکڑیاں کیسے لگائی جا سکتی ہیں؟ وہ بھی محض وزیراعظم کے کہنے پر۔ ایسا مگر ہوا۔ جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک پہنچا، اس افسر نے رو رو کر داستان سنائی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس کی ہتھکڑیاں کھلوائیں اور پولیس کو ڈانٹا کہ خلاف قانون کام کیوں کیا ہے؟ یہ اطلاع وزیراعظم کو پہنچی تو وہ برہم ہوئے۔ دراصل وہ ہیوی مینڈیٹ لے کر آئے تھے اور خود کو ہر ادارے سے بالاتر سمجھتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

عدلیہ، حکومت ٹکراو کی اتارچڑھاو سے بھرپورڈرامائی کہانی

انسداد دہشت گردی بل
تیرہ اگست97 کو اینٹی ٹیررازم بل کی منظوری نے مسائل بڑھا دئیے، اس بل میں آئین کے خلاف جا کر پولیس کو بے پناہ اختیارات دئیے گئے، سمری کورٹس بنائی گئیں اور پولیس تحویل میں اعترافی بیان کو شہادت کے طور رتسلیم کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی بعض شقوں کو معطل کر دیا تو نواز شریف سخت ناراض ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ عدالت حکومت کے معاملے میں مداخلت کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے لئے جج دینے سے انکار
تیسرا ایشو سپریم کورٹ میں خالی سیٹوں پر جج نہ دینے کی وجہ سے بنا۔ پانچ ججوں کی جگہ خالی تھی، چیف جسٹس نے خط لکھا، مگر عدالت تیار نہیں تھی۔ وجہ یہی کہ منظور نظر ججوں کو وہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ نہیں بھیجنا چاہتے تھے۔ اس پر مسائل بڑھتے گئے ۔ اس دوران ایک آرڈر بھی جاری کرایا جس کے مطابق سپریم کورٹ کے جج سترہ سے بارہ ہوجانے تھے، سپریم کورٹ نے وہ آرڈر معطل کر دیا۔ یہ پانچ ستمبر کی بات ہے۔ اس دوران وزیراعظم اور بعض دیگر لیڈر نے عدالت کے خلاف توہین پر مبنی تقاریر کیں جس پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع کر دی، یہ معاملات اگست کے اواخر اور ستمبر سے چلنے لگے۔

مفاہمت کی کوششیں
اکتوبر کے اینڈ میں لگا کہ معاملات طے ہونے لگے ہیں، نواز شریف نے جج دینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ نو نومبر کو بزرگ صحافی مجید نظامی کے توسط سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم نواز شریف کی رائیونڈ جاتی عمرہ میں ملاقات ہوئی۔ حکومت نے پانچ جج سپریم کورٹ میں بھیج دئیے ۔ معاملات مگر ختم نہیں ہوئے اور توہین عدالت کیس کی کارروائی چلتی رہی۔

معاملہ ختم نہ ہوا
اس سے آگے چند دنوں میں معاملات بگڑتے گئے۔ ایک اہم بات یہ ہوئی کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے مختلف سپریم کورٹ کے ججزکو مختلف شہروں میں بھیج دیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان، خلیل الرحمن خان اور ناصر اسلم زاہد کو کوئٹہ جبکہ سعید الزماں صدیقی، مختار جونیجو اور جسٹس عبدالرحمن کو پشاور بھیج دیا گیا، بعض ججز کو کراچی جبکہ خود وہ پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں کیسز سننے لگے۔

روز بہ روز ہونے والے اقدامات
سترہ نومبر: قومی اسمبلی نے توہین عدالت ایکٹ میں ترمیم منظور کرتے ہوئے انٹراکورٹ اپیل شامل کر لی جس کی رو سے توہین عدالت کی سزا دینے والے ججوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ تمام ججوں پر مشتمل لارجر بنچ کے آگے اپیل کی جا سکے گی۔ بل سینٹ سے بھی منظور ہوگیا۔
اٹھارہ نومبر: کوئٹہ میں جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس خلیل الرحمن خان کے سامنے چیف جسٹس کے تقرر کو چیلنج کرنے کی پٹیشن آئی۔ بنچ نے اسے اسلام آباد چیف جسٹس کو بھجوا دیا تاکہ وہ اس پر فل کورٹ بنا سکیں۔( فل کورٹ سے مراد سپریم کورٹ کے تمام جج ہوتے ہیں۔)
انیس نومبر: وزیراعظم نواز شریف نے صدرفاروق لغاری سے کہا کہ وہ توہین عدالت ایکٹ میں ترمیمی بل پر فوری دستخط کر دیں۔
انیس نومبر: چیف جسٹس کی زیرصدارت بنچ میں وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔
بیس نومبر: مسلم لیگ ن اور اتحادیوں نے صدر لغاری کے مواخذہ کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا اعلان کر دیا گیا۔
بیس نومبر: چیف جسٹس نے صدر لغاری کو ہدایت کی کہ وہ توہین عدالت ترمیمی ایکٹ پر دستخط نہ کریں۔ عدالت نے کہا کہ اگر فرض کریں صدر دستخط کر دیں تب بھی اس پر عملدرآمد معطل رہے گا جب تک عدالت اس کا ریویو نہ کر لے۔
بیس نومبر: صدر لغاری نے ترمیمی بل پر دستخط سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں عدالت کی ہدایت کا پابند ہوں۔
سینئر وکلا نے حکومت کو بتایا کہ پارلیمنٹ چاہے بھی تو چیف جسٹس پاکستان کو نہیں بلا سکتی۔ پارلیمانی نظام میںپارلیمنٹ کی اہمیت ہے، مگر عدلیہ کا اپنا مقام اور تقدس ہے۔

میاںنواز شریف کی” معصومانہ خواہش“
نوا زشریف صاحب چیف جسٹس پر اس قدر جھنجھلائے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے ایک سینئر وزیر سے مشورہ کیا کہ کسی طرح پولیس کو استعمال کر کے یا کوئی اور حربہ آزما کر چیف جسٹس سجاد شاہ کو ایک رات کے لئے جیل نہیں رکھا جا سکتا۔ سینئر وزیر یہ سن کر چکرا گیا۔ برسوں بعد میں اپنی کتاب میں اس نے یہ واقعہ لکھتے ہوئے یاد کیا کہ میاں صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔ وزیر نے میاں صاحب کو بتایا کہ آپ یہ خیال ذہن سے نکال دیں، یہ نہایت خطرناک بات ہے اور عملی طور پر ممکن بھی نہیں۔ ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
اکیس نومبر : سپریم کورٹ نے تیرویں ترمیم میں حکومت کو نوٹس جاری کر دئیے ۔

چھبیس نومبر کا ہنگامہ خیز دن
چھبیس نومبر،کوئٹہ : سپریم کورٹ ڈویژن بنچ کوئٹہ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا بطور چیف جسٹس تقرر معطل کر دیا اور انہیں عدالتی اور انتظامی کاموں سے روک دیا گیا۔ یہ بنچ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس خلیل الرحمن خان پر مشتمل تھا۔ درخواست کے ایک رہائشی ملک اسد علی نے دائر کی تھی۔ بنچ نے اگلی تاریخ اٹھائیس نومبر مقرر کر دی ۔
چھبیس نومبر،اسلام آباد، سپریم کورٹ بلڈنگ : چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کی سربراہ میں تین رکنی بنچ نے کوئٹہ بنچ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالت نے لکھا کہ یہ فیصلہ کسی قانونی اتھارٹی کے بغیر اور غلط ہے ۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ قواعد کے مطابق ہر درخواست پہلے پرنسپل سیٹ اسلام آباد آتی ہے ، کسی رجسٹری (پشاور، کوئٹہ، لاہور ، کوئٹہ)میں یہ براہ راست دائر نہیں ہوسکتی۔ اس بنچ میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس چودھری محمد آصف تھے۔
چھبیس نومبر، اسلام آباد، ایوان صدر: صدر فاروق لغاری نے جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس بنانے کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔ یاد رہے کہ حکومت نے کوئٹہ بنچ کے فیصلے پر ترنت سمری صدر کو بھیجی کہ سجاد علی شاہ اب چیف جسٹس نہیں رہے تو ان کے بعد سینئر موسٹ جج اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس بنا دیا جائے۔ صدر نے یہ سمری مسترد کر دی ۔
چھبیس نومبر ، اسلام آباد، سپریم کورٹ بلڈنگ ،رجسٹرارآفس: ایک پٹیشن دائر ہوئی جس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کی استدعا کی گئی ۔ معروف انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنی خبر میں یہ معنی خیز الفاظ استعمال کئے ، ” ایک غیر معروف وکیل نے یہ ویل ڈرافٹڈ پٹیشن دائر کی۔“ اخبار غالباً یہ اشار ہ کرنا چاہتا تھا کہ وکیل معروف نہیں تھا مگر ڈرافٹنگ کسی بڑے وکیل نے پس پردہ رہتے ہوئے کی۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔

ڈرامہ کلائمکس کی طرف گامزن ِ
ستائیس نومبر: سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ نے چیف جسٹس کا ایگزیکٹو آرڈر ختم کر دیا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کوئٹہ کے ڈویژن بنچ کے فیصلے کو ختم کیا تھا۔ موجودہ کوئٹہ بنچ فل بنچ یعنی تین ججوں پر مشتمل تھا، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس خلیل الرحمن خان ، جسٹس ناصر اسلم زاہد۔ یاد رہے کہ تین رکنی بنچ کی ضرورت اس لئے آئی کہ چیف جسٹس کا بنچ تین رکنی تھا اور کوئٹہ کا دو رکنی ڈویژن بنچ اس کے مقابلے میں کم تھا۔ البتہ موجودہ کوئٹہ بنچ تین رکنی تعداد کی وجہ سے چیف جسٹس کے بنچ کے ہم پلہ تھا۔ اس بنچ نے کہا ڈویژن بنچ کوئٹہ کے چھبیس نومبر کے فیصلے کو درست اور قابل نفاذ قرار دیا۔
ستائس نومبر، پشاوررجسٹری سپریم کورٹ : سپریم کورٹ پشاور کے ایک دو رکنی بنچ نے بھی کوئٹہ بنچ کے فیصلے کی تائید کر دی ۔ یہ بنچ جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس فضل الٰہی خان پر مشتمل تھا، پشاور میں موجود تیسرے جج جسٹس مختار جونیجو بنچ میں نہیں بیٹھے۔
ستائیس نومبر، اسلام آباد ، وزیراعظم ہاﺅس: وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ فتح تک لڑیں گے، جمہوری قوتوں کی فتح تک۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے عوام نے مجھے خدمت کے لئے منتخب کیا ہے، مگر میں جب بھی ان کے لئے کام کرنے لگتا ہوں، منفی ایجنڈا رکھنے والی قوتیں مجھے روک دیتی ہیں
ستائیس نومبر،سپریم کورٹ: چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے صدر فاروق لغاری کو خط لکھا کہ سپریم کورٹ کو آرمی یا پیراملٹری فورسز کے ذریعے تحفظ دیا جائے، سپریم کورٹ بلڈنگ اور کیس کی سماعت کرنے والے ججوں کے گھروں کے باہر مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے۔ صدر نے یہ خط غالباً آرمی چیف جنرل کرامت کو بھیج دیا، کہا جاتا ہے کہ آرمی چیف نے وہ خط وزارت دفاع کو بھیج دیا یعنی حکومت کو کہ وہ سپریم کورٹ کو تحفظ دینے کے اقدامات کرے۔ (اگر وہاں کوئی شاعر بیٹھا ہوتا تو یقینی طور پر یہ مصرع گنگناتا، اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا)

اٹھائیس نومبر (D Day)
اٹھائیس نومبر،اسلام آباد ، سپریم کورٹ بلڈنگ ، کورٹ نمبر ون : چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنی عدالت میں بیٹھے، بمشکل آدھا پون گھنٹہ سماعت ہوئی ہوگی کہ باہر سے شور اٹھا، پتہ چلا کہ سینکڑوں مسلم لیگی کارکنوں نے سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ کر دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دو سو سے زیادہ پولیس والے لاٹھیوں سے مسلح موجود تھے، مگر کسی نے کارکنوں کو روکنے کی زحمت تک نہیں کی۔ پرجوش لیگی کارکن گیٹ توڑ کر اندر گھسے، چیف جسٹس کے استعفے کے نعرے لگائے، ان کے نام کی تختی اکھاڑ پھینکی اور کورٹ نمبر ون کی طرف لپکے، مقصد چیف جسٹس اور ان کے دو ساتھی ججوں کو سبق سکھانا تھا۔
تینوں جج صاحبان اس دوران ریٹائرنگ روم جا کر دروازہ بند کر چکے تھے، انہیں بمشکل پولیس نے پچھلے دروازے سے نکالا۔ جس صحافی نے بھاگ کر ججوں کو حملہ کی اطلاع کی تھی، اسے البتہ خاصی کٹ پڑی۔ مبینہ طور پر یہ لیگی کارکن لاہور سے لائے گئے تھے ، پنجاب ہاﺅس میں ناشتہ کے بعد شہباز شریف انہیں سپریم کورٹ بلڈنگ لے آئے، تین لیگی ارکان اسمبلی ان کی قیادت کر رہے تھے۔ایم این اے میاں منیر، ایم این اے طارق عزیز، ایم پی اے اختر رسول ۔ جس مقصد کے لئے حملہ ہوا تھا، وہ پورا ہوا اور کارروائی پیر تک کے لئے معطل ہوگئی۔
اٹھائیس نومبر، کوئٹہ : سپریم کورٹ کے بنچ نے مائنس چیف جسٹس ایک فل کورٹ بلانے کا کہا جوچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف الزامات کی سماعت کرے۔ ایسا ہی ایک آرڈر پشاور بنچ نے بھی جاری کیا۔ سعید الزماں صدیقی نے پندرہ رکنی فل کورٹ بلائی، جس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ شامل نہیں تھے جبکہ ان کے بعد سینئر موسٹ جج اجمل میاں نے بھی غیر جانبدار رہنا پسند کیا۔
تیس نومبر، اسلام آباد: چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنی رہائش گاہ سے آرڈر جاری کرتے ہوئے جسٹس سعیدالزماں صدیقی کے فل کورٹ آرڈرز کو منسوخ کر دیا۔ دوسری طرف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سجاد علی شاہ کے ان مذکورہ آرڈرز کو لینے سے انکار کر دیا ۔

اختتام کی طرف
یکم دسمبر، اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے صدر لغاری کے مواخذہ کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ 1993کی طرح مستعفی نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کے مطابق تب انہوں نے غلطی کی تھی، جسے دہرانے کا وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
یکم دسمبرپیر، اسلام آباد، سپریم کورٹ بلڈنگ: سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار دو الگ الگ کاز لسٹیں ایشو کی گئیں، ایک جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے جبکہ دوسری جسٹس سعید الزماں صدیقی کی جانب سے پندرہ رکنی فل کورٹ کی۔ سینئر وکلا دونوں اطرف کے ججوں کے پاس گئے اور اکھٹے بیٹھ کر میٹنگ کرنے اور مسائل سلجھانے کی درخواست کی ۔ میٹنگ ہوئی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔

اختتام
دو دسمبر، اسلام آباد، سپریم کورٹ : کورٹ نمبر ون میں سجاد علی شاہ نے جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس چودھری آصف کے ساتھ کارروائی کا آغاز کیا اور شروع ہی میں تیرویں آئینی ترمیم معطل کر دی ۔
دو دسمبر، اسلام آباد، سپریم کورٹ ، کورٹ نمبر ٹو: جسٹس سعیدالزماں صدیقی کی سربراہی میں دس رکنی بنچ نے فوری طور پر چیف جسٹس کے بنچ کی جانب سے تیرویں ترمیم کی معطلی کا آرڈر منسوخ کر دیا۔ یاد رہے کہ اس ترمیم کی معطلی سے صدر لغاری کو اسمبلی توڑنے کا اختیار مل گیا تھا۔
دس رکنی بنچ میں جسٹس سعیدا لزماں صدیقی، جسٹس فضل الٰہی خان، ارشاد حسن خان، راجہ افراسیاب خان، ناصر اسلم زاہد، منورا حمد مرزا، خلیل الرحمن خان ، شیخ ریاض احمد ، عبدالرحمن خان شامل تھے۔ بعض جج صاحبان جیسے اجمل میاں، جسٹس مختار جونیجو، جسٹس مامون قاضی وغیرہ نیوٹرل رہے ، وہ دونوں بنچوںمیں شامل نہیں ہوئے۔
اگلے کچھ دیر تک یوں ہی ہوتا رہا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے چودھویں ترمیم بھی معطل کر دی ، دس رکنی بنچ نے وہ فیصلہ بھی اڑا دیا۔ جو فیصلہ چیف جسٹس کا بنچ کرتا، چند منٹوں بعد اسے ساتھ والے کمرے میں بیٹھا بنچ اڑا دیتا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سب فیصلے ہوا میں ہوئے ، دس رکنی بنچ کے پاس نہ کوئی پٹیشن تھی نہ کوئی فائل وغیرہ، فیصلے بس ایسے ہی ہوئے جا رہے تھے۔
دو دسمبر، اسلام آباد، ایوان صدر۔ صدد فاروق لغاری نے استعفا دینے کا اعلان کر دیا۔ انہوںنے وزیراعظم نواز شریف پر سخت تنقید کی اور انہیںتمام تر غلط کاموں کا ذمہ دار ٹھیرایا۔تاہم صدر لغاری نے کہا کہ وہ اسمبلی توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اس کے بجائے مستعفی ہو رہے ۔
دودسمبر: سجاد علی شاہ کے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس اجمل میاں نے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے انتظامی اختیارات سنبھال لئے ۔ دس رکنی بنچ نے جسٹس اجمل میاں کو بطور چیف جسٹس عدالتی اور انتظامی اختیارات استعمال کرنے کا کہا۔ جسٹس اجمل میاں نے چھ نئے بنچ بنا دئیے، جن میں سے ایک بنچ میں جسٹس سجاد علی شاہ بھی بطور جج شامل تھے۔
ایوان صدر: چیئرمین سینٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر پاکستان بن گئے۔
مایوس اور شکست خوردہ جسٹس سجاد علی شاہ کراچی چلے گئے ، اسلام آباد ائیر پورٹ پر انہیں دس رکنی بنچ کی جانب سے نوٹس پہنچایا گیا، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ انہیں بائی پوسٹ نوٹس کراچی بھیجے جائیں۔ کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے عندیہ ظاہر کیا کہ وہ اپنا کیس خود سپریم کورٹ میں لڑیں گے۔
تین دسمبر، اسلام آباد: جسٹس اجمل میاں نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لے لیا۔

مختلف کرداروں کو کیا ملا؟
تاریخ کے اس اہم موڑ پر جن کرداروں نے جو کچھ کیا، ان سب کو ان کی ایک خاص قیمت ادا کرنا پڑی۔
فاروق لغاری نے بطور صدر بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑی تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کو لانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہیں صدر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ بعد میں انہوں نے ملت پارٹی بنائی مگر سیاسی طور پر ابھر نہ سکے، جنرل مشرف کے دور میں انہیں اپنی ننھی منی پارٹی ق لیگ کے ساتھ شامل کرنا پڑی۔ اپنے آخری الیکشن میں وہ بمشکل ایم این اے بن پائے تھے۔
جسٹس سجاد علی شاہ : انہوں نے نواز شریف اسمبلی کی بحالی کے فیصلے (1993)میں اختلافی فیصلہ لکھا تھا اور کہا کہ پنجابی وزیراعظم کی اسمبلی بحال ہوجاتی ہے، سندھی کی نہیں۔ تین سال بعد انہوں نے سندھی وزیراعظم کی اسمبلی توڑے جانے کو جائز قرار دیا اور فیصلہ الیکشن سے صرف تین چار دن پہلے دیا تاکہ پیپلزپارٹی اپنی کمپین بھی نہ چلا پائے۔ نواز شریف سے ٹکراﺅ کے بعد ان کا کیئرئر ختم ہوا، ان کی پنشن بھی خاصا عرصہ بند رہی اور باقی ماندہ حصہ انہوں نے گمنامی میں گزارا۔
جسٹس سعیدالزماں صدیقی : انہوں نے دس رکنی بنچ کے سربراہ کے طور پر بہت اہم کام کیا اور سجاد علی شاہ کو رخصت کرنے میں کردار ادا کیا۔ بعد میں اپنی باری پر وہ چیف جسٹس پاکستان بنے ۔ جنرل مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت وہ فارغ کئے گئے، جسٹس سجاد علی شاہ کی طرح انہیں بھی جانا پڑا۔ کئی سال تک گمنام رہے اور پھر نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں انہیں گورنر سندھ بنایا، صرف چند دنوں کے بعدوہ علیل ہوئے اور انتقال کر گئے۔
جنرل جہانگیر کرامت: تب آرمی چیف جنرل کرامت نے عدلیہ یا صدر کے بجائے وزیراعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو سکیورٹی بھی فراہم نہ کی اور اس کے نتیجے میں حملہ ہوگیا۔ جس وزیراعظم کی جنرل کرامت نے حمایت کی، اسی نے اگلے سال انہیں خاصا بے آبرو کر کے استعفادینے پر مجبور کر دیا۔ استعفے کے بعد انہیں ایک امریکی تھنک ٹینک میں ملازمت کرنا پڑی۔
نواز شریف: وزیراعظم نواز شریف فاتح ٹھیرے، چیف جسٹس اور صدر سے جان چھوٹ گئی، اگلے سال آرمی چیف بھی بدل ڈالا اور اپنی مرضی کے اردو سپیکنگ جنرل مشرف کو چیف بنایا۔ صرف ایک سال بعد نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، ان پر مقدمہ چلا، ایک سال تک وہ جیل میں رہے اور پھر سعودی حکومت کے تعاون سے ڈیل کر کے کئی سال تک جلاوطن ہوگئے۔ ان کی واپسی کی راہ تب کھلی جب بے نظیر بھٹو ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کر کے وطن واپس آئیں۔ تب نواز شریف کے لئے بھی واپسی ممکن ہوئی۔

Related Posts