اسلام اور نور مقدم: کیا اینکرعمران خان کی مقتولہ پر الزام تراشی درست ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Imran Khan Noor Mukadam

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں گزشتہ کچھ عرصہ میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد و قتل و غارت کے واقعات میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے الٹا متاثرین کو مورد الزام ٹھہرانا ہماری روایت بنتی جارہی ہے ۔

کچھ ایسا ہی گزشتہ روز ہواجب معروف اینکر عمران ریاض خان نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں قتل ہونیوالی نورمقدم کے کیس کے حوالے سے مقتولہ پر الزام تراشی کرکے کیا۔عمران ریاض خان کے متنازعہ بیان پر پاکستان بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور معاشرے سے یہ سوال کیا ہے کہ پاکستانی متاثرہ شخص کو انصاف دلوانے کے بجائے الزام دینا کب چھوڑیں گے؟۔

نورمقدم کا قتل
27 سالہ خاتون نور مقدم کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبادمیں ایک مشہور تاجر کے بیٹے ظاہر جعفر نے قتل کیااورمجرم پاکستان کے قانون سے بچ نکلنے کیلئے اتناپراعتماد تھا کہ اس نے قتل کے روزامریکا جانے کے لئے ایک پرواز میں اپنی نشست کی بکنگ بھی کروالی تھی ۔

نور مقدم پاکستان کے سابق سفیر کی بیٹی تھیں اور ان کے سفاکانہ قتل نے ملک بھر میں ایک غم و غصے کی لہر پیدا کردی ہے ،نورمقدم واقعہ سے قبل کچھ روز سے ملزم ظاہر جعفر کے ساتھ تھی۔اطلاعات کے مطابق وہ دونوں طویل عرصے سے دوست تھے تاہم 21 جولائی کو ظاہرجعفر نے نہ صرف اس کا قتل کیا بلکہ اس نے تیز دھارے آلے سے اس کا سر قلم کردیا۔

اینکر عمران ریاض خان کی تنقید
معروف ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران خان نے مقتولہ نور مقدم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” نور مقدم کا اپنے والد سے گزشتہ 6 ماہ کے دوران کتنی مرتبہ رابطہ ہوا ہے۔ اس کے والد نے اسے 8 مرتبہ میسج کیا اور نور مقدم نے انہیں صرف 3 مرتبہ جواب دیا۔ یہ تو رابطہ تھا اس کا اپنے والد کے ساتھ ۔ لیکن آپ کو پتا ہے کہ جس بندے نے اس کا گلا کاٹا ہے اس کے ساتھ کتنی مرتبہ رابطہ ہوا ۔

ظاہر جعفر کے ساتھ نور مقدم کے سیکڑوں رابطے تھے گزشتہ 6 ماہ کے دوران۔ جہاں رابطے ہونے چاہئیں تھے وہاں نہیں ہے اور جہاں نہیں ہونے چاہئیں تھے وہاں تھے۔ اسلام آپ کو بتاتا ہے کہ ایسا نہ کریں یہ گناہ ہے ۔ آپ کو نامحرم کا تصور دیتا ہے پھر آپ کا معاشرہ آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔”

شہریوں کا ردعمل
اینکر عمران ریاض خان کے ویڈیو کلپ پر رائے زنی کرتے ہوئے صحافی زیب النسا برکی کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی ناگوار اور خطرناک ہے اور اسے رپورٹ کیا جانا چاہیے۔‘ایک اور ٹوئٹر صارف اور معروف صحافی منصور خان نے ’مرد نے اس عورت کو مار دیا جس نے اپنے والد کو صرف تین مرتبہ ٹیکسٹ پیغام بھیجا‘ والی ہیڈ لائن کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اس خبر کو اس طرح لکھا جانا چاہیے ’مرد نے عورت کا قتل کر دیا‘۔ٹوئٹر صارف انیلہ صدیق میر نے لکھا ہے کہ “اینکر عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا ہے مگر کسی کو قتل کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔”ان چند لوگوں کے علاوہ بھی لاتعداد لوگوں نے اینکر عمران ریاض خان کے الزامات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

متاثرین کو الزام دینے کی روایت
پاکستان میں زیادتی سے متاثر ہونیوالوں پر الزام لگانا روایت بن چکا ہے اور موٹروے عصمت دری کے واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ، کہ وہ خاتون موٹر وے پر بھائی یا شوہر کے بغیر اتنی دیر سے کیوں نکلی؟ اور اگر اسے سفر کرنا تھا تو اس نے جی ٹی روڈ کا عوامی راستہ کیوں نہیں اختیار کیا؟ یہ وہی الفاظ تھے جو لاہور کیپٹل چیف پولیس آفیسر عمر شیخ نے ایک خاتون کے اجتماعی زیادتی کے جواب میں کہے تھے ، جسے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر دو افراد نے اپنے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیاتھا۔

کیا الزام تراشی درست ہے؟
اینکرعمران خان کے اس بیان پر واپس آتے ہیں جس میں اس نے نور کے قتل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی کیونکہ ان کے نزدیک نورمقدم اور ظاہر جعفر کے ناجائز تعلقات تھے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ قراۃ العین کے کیس میں کیا کہیں گے کیونکہ اسے تو اسکے شوہر نے قتل کیا تھا۔

قراۃ العین نامی خاتون نہ صرف ایک بیوی تھی بلکہ چار چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں بھی تھی جسے اسکے شوہر نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اس کا قاتل کے ساتھ تعلق بالکل غیر قانونی نہیں تھا۔ پھر اسے تشدد کا نشانہ کیوں بنایا گیا ؟

یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان خواتین کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور عمران ریاض خان جیسے صحافی قتل جیسے سنگین واقعات پر بھی توجیہات پیدا کرکے کیس کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب تک ہم سنگین جرائم پر اجتماعی سوچ نہیں اپنائینگے اس طرح کے واقعات کا سبدباب کرنا ناممکن ہے۔

Related Posts