کیا بھارت حالیہ پرتشدد حملوں کے بعد مسلمانوں کیلئے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Is India becoming unsafe for Muslims after recent violent attacks

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت میں مسلمانوں پر وحشیانہ حملے معمول بن چکے ہیں، گزشتہ چند دنوں کے دوران بی جے پی کی زیر قیادت ریاست تریپورہ میں کم از کم چھ مساجد اور مسلمانوں کے ایک درجن سے زائد مکانات اور دکانیں جلا ئی جاچکی ہیں۔

پاکستان نے بھارت کی شمالی ریاست تریپورہ میں انتہا پسند ہجوم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ حالیہ پرتشدد حملوں کے بعد ان خدشات نے سر اٹھالیا ہے کہ کیا بھارت مسلمانوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے؟

تریپورہ کے واقعات
شمالی تریپورہ ضلع سے گزشتہ چار دنوں میں مذہبی تشدد کے 10 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ تریپورہ بنگلہ دیش کے تین اطراف سے گھرا ہوا ہے اور ایک راہداری کے ذریعے پڑوسی ریاست آسام سے جڑا ہوا ہے۔

تریپورہ میں چھ مساجد اور مسلمانوں کے ایک درجن سے زائد مکانات اور دکانیں جلا دی گئیں۔ مبینہ طور پر یہ حملے ہندوگروپ آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے ریاست بھر میں بنگلہ دیش میں تشدد کے جواب میں کیے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جمعہ کی رات کو کرشن نگر، دھرمان نگر، پانیساگر، چندر پور کی مساجد میں بھی انتہاپسندوں نے توڑ پھوڑ کی۔

وی ایچ پی کی طرف سے نکالی گئی ریلی کے شرکاء نے کرشن نگر جامع مسجد کی کھڑکیوں کے شیشے اور سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا۔ شمالی تریپورہ ضلع کے پانیساگر میں ایک مسجد کو ہندو پرتشدد ہجوم نے نذر آتش کر دیا۔

تریپورہ کی ریاست اگرتلہ کے قریب واقع علاقے میں مسجد کو گھیرے ہوئے ایک ہجوم نے “جے شری رام” کا نعرہ لگایا اور ہندو کی علامات والاجھنڈا لگا دیا۔

شمالی تریپورہ ضلع کے دھرمن نگر میں ایک مسلم وکیل کے گھر پر حملے کی ریاست کے مسلم گروپوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔

اسی علاقے میں ہندو گروپوں نے علاقے کے ایک معروف تاجر عبدالمنان کے گھر کے سامنے متنازع جھنڈا لگا یا۔ مقامی مسلم آبادی کے مطابق مسلم مخالف حملے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے۔

مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک
حکومت کے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 46 فیصد مسلمان شہری بھارت میں اپنا کاروبارکرتے ہیں جو کسی بھی دوسری کمیونٹی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے تمام مذہبی گروہوں میں مسلمان سب سے غریب ہیں اور غیر رسمی شعبے میں کم تنخواہ والی ملازمتوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

مزید یہ کہ اکتوبر میں کرناٹک کے بیلگاوی ضلع میں ایک 25 سالہ مسلمان شخص کی سر قلم کی گئی لاش ریلوے ٹریک پر ملی تھی۔

ستمبر میں میرٹھ میں ایک ہندو خاتون نے اپنے مسلمان بوائے فرینڈ کو اس کے منہ پر چپل سے مارا تھا۔ اگست کے دوران ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا، ہراساں کیا گیا، حملے کئے گئے ، سرعام ذلیل کیا گیا،جئے شری رام اوروندے ماترم کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔

دیکھا جائے توبھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کے تشدد کی ایک زیادہ مکروہ شکل بھی پائی جاتی ہے ۔

قوانین اور پالیسیوں میں امتیازی سلوک
2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی حکومت نے مختلف قانون سازی اور دیگر اقدامات کیے ہیں جنہوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو قانونی حیثیت دی ہے اور پرتشدد ہندو قوم پرستی کو فعال کیا ہے۔

2019 میں بھارتی حکومت نے دسمبر میں ایک شہریت کا قانون پاس کیا جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو بڑھاوادیتاہے۔ اگست 2019 میں حکومت نے واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو دی گئی آئینی خودمختاری کو بھی منسوخ کر دیا اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پابندیاں عائد کر دیں۔

اکتوبر 2018 سے بھارتی حکام نے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کو ان کی جانوں اور سلامتی کو لاحق خطرات کے باوجود میانمار میں ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی ہے اور پہلے ہی درجنوں مسلمانوں کو واپس بھیجا جاچکا ہے۔

مسلمان اور غیر محفوظ بھارت
اس طرح کی کارروائیاں ملکی قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی نفی کرتی ہیں جونسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور حکومتوں سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ رہائشیوں کو قانون کے تحت مساوی تحفظ فراہم کریں۔

بھارتی حکومت بھی مذہبی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کے تحفظ کی پابند ہے تاہم ریاست ان حقوق کے تحفظ میں ناکام نظر آتی ہے۔

Related Posts