مہنگائی کو ماریں اس سے پہلے کہ مہنگائی ہمیں ماردے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اس وقت پوری دنیا مہنگائی کے مسئلے سے الجھ رہی ہے اور ہر ملک میں الگ الگ مسائل کی وجہ سے مہنگائی کا عفریت اپنے پنجے گاڑھتا جارہا ہے۔

دنیا بھر کے مسائل اس لئے بڑھ رہے ہیں کیونکہ طلب اور رسد میں ایک واضح فرق دیکھا جارہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کا نظام منجمد تھا اور کاروبار مکمل طور پر بند تھا۔

لوگ بہت ہی محتاط ہوکر صرف اور صرف ضرورت کے تحت باہر نکلتے تھے اور اشیاء کا استعمال بھی کم ہوگیا تھا مگر جونہی کورونا کی وباء پر قابو پایا گیا تو انسان اپنی ضرورت کی چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی پرآسائش زندگی کیلئے خوبصورت چیزوں کی تلاش میں نکل پڑا اور ضرورت سے زیادہ چیزوں کے استعمال کی ہوس نے انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

بیرونی دنیا میں سپلائی چین کے اندر رکاوٹ آئی جس کی وجہ لیبر کی کمی تھی اور صنعتکار اپنی اشیاء کا معیار برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے جبکہ مزدوروں کی طرف سے مزدوری بڑھانے کے مطالبات سامنے آنے کی وجہ سے مل مالکان کو ان کی ڈیمانڈ پوری کرنا پڑی جس کی وجہ سے لاگت میں  اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن کچھ کارخانے ایسے بھی تھے جنہوں نے مزدوروں کے مطالبات ماننے کے بجائے تعداد کم کردی اور ان کی پیداوار میں بھی کمی آئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں عدم توازن پیدا ہوا۔

اس کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو مکمل استعداد کے ساتھ چلانے والوں کی تیل و گیس کی طلب بڑھ گئی جس کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا اور پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی اوپر چلی گئیں کیونکہ جو لوگ گھروں میں تھے ان کے باہر نکلنے کی وجہ سے بھی پیٹرول وڈیزل کی طلب میں اضافہ ہوا۔

فضائی خدمات کی بحالی اور سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد سے ایندھن کا استعمال معمول پر آنے سے اچانک طلب میں اضافہ ہوا اور ریفائنریز پر دباؤ آیا اور قلت کی وجہ سے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں مہنگائی صرف اس وجہ سے آئی کیونکہ مزدوروں کی تنخواہیں  نہیں بڑھائی گئیں مگر کارخانوں کی لاگت بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھنے سے اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے تمام اشیاء مہنگی ہوگئیں اور حکومت چونکہ مختلف اشیاء امپورٹ کرتی رہی اس لئے روپے پر دباؤ بڑھا اور ڈالر پاکستان میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔

اسٹیٹ بینک نے ڈالر کی بڑھتی قیمتوں کو قابو کرنے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جس سے روپے کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں کمی ہوتی۔ دنیا بھر میں جب مہنگائی ہوتی ہے تو شرح سود کو کم کردیا جاتا ہے تاکہ لوگ آسانی سے قرض لے کر کاروبار کرسکیں اور کارخانوں کی لاگت بھی کم ہو۔

شرح سود میں کمی کے فارمولے کے تحت کورونا کی وباء کے دوران جب شرح سود کم کی گئی تو پاکستان نے کورونا کے باوجود اپنی ایکسپورٹس میں اضافہ کیا اور اس دوران مہنگائی بھی قابو میں تھی۔

بدقسمتی سے کورونا وائرس کے دوران حکومت نے کسی قسم کی پالیسی نہیں بنائی کہ اگر وباء پر دنیا بھر میں قابو پایا گیا تو عالمی منڈی میں چیزوں کی طلب بڑھ جائیگی تو پاکستان اس صورتحال سے کیسے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

حکومت میں ایک عجیب سی سراسیمگی کی کیفیت تھی اور ہر شخص گھبرایا ہوا تھا جس کی وجہ سے حکومت پر عوام کا دباؤ بڑھا اور بلاوجہ حکومت نے مختلف اشیاء مہنگے داموں امپورٹ کرنا شروع کردیں۔

اگر حکومت پہلے سے تخمینہ لگاتی کہ وباء پر قابو کے بعد آٹا،چینی، تیل اور دیگر اشیاء کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے تو وباء کے دوران عالمی منڈی سے سستے داموں ملنے والی اشیاء امپورٹ کرلینی چاہیے تھیں لیکن ہماری حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے کوئی پیش بندی نہیں کی گئی۔

پاکستان کی مثال یوں ہے کہ ہم بارش آنے سے پہلے چھتری خریدنے کے بجائے بارش کے دوران چھتری خریدنے نکل پڑتے ہیں اور ملک میں بھی ایسا ہی ہوا کہ جب کورونا کی وباء تھم گئی تو اشیاء کی قلت کی وجہ سے حکومت کو مہنگے داموں اشیاء امپورٹ کرنا پڑی جبکہ یہی اشیاء چند ماہ پہلے انتہائی کم قیمتوں پر دستیاب تھیں لیکن منصوبہ سازوں کی توجہ شائد کہیں اور تھی۔

آگے آنیوالے دنوں میں بھی شائد ہم مہنگائی پر قابو نہیں کرپائینگے کیونکہ حکومت ٹیکس جمع کرنے پر لگی ہوئی ہے اور بہت ہی خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ ہم نے ہدف سے زیادہ محصولات وصول کرلئے ہیں اور بغیر کی منصوبہ بندی کے کہا جارہا ہے کہ آئندہ 3 سے 6 ماہ میں اشیاء سستی ہوجائینگی ۔ چیزیں اس وقت سستی ہونگی اور پاکستان اس وقت ترقی کریگا جب ہماری حکومت کی توجہ انسانی حقوق کو سمجھے۔

پاکستان میں ٹیکس کی کمی کیلئے سب سے پہلے جی ایس ٹی کو کم کرنا پڑے گا کیونکہ اس وقت حکومت جوجی ایس ٹی کے ذریعے پیسے وصول کرتی ہے وہ عام افراد کی آمدنی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن جی ایس ٹی میں کمی کی وجہ سے تمام اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور استحکام ممکن ہے اور اگر حکومت 17 فیصد جی ایس ٹی کو 9 فیصد پر لے آئے تو غربت کم ہوسکتی ہے۔ ساتھ ساتھ بجلی گھروں کا آڈٹ کیا جائے اور ان کی ناجائز قیمتوں کو کم کرکے ناصرف صنعتوں کو بلکہ عوام کو بھی ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔

عالمی منڈی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت کو فیوچر ایکشن پلان بنانا پڑے گا اور پیٹرول و ڈیزل کے استعمال میں کمی کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام بنانا پڑے گا۔اسٹوریج کی استعداد کو بڑھانے کے ساتھ اداروں میں ایسے ماہرین کو تعینات کرنا چاہیے جو حکومت کوعالمی مارکیٹ کے اتارچڑھاؤ سے آگاہ رکھیں۔

حکومت کو طلب اور رسد کا درست تعین کرنا چاہیے اور منصوبے کے تحت خریداری کرنی چاہیے ناکہ اس وقت جب مارکیٹ میں اشیاء کے دام بڑھ رہے ہوں۔

پاکستان میں دنیا کی ہر چیز موجود ہے اگر نہیں ہے تو صرف انسانی حقوق کو سمجھنے والے حکمرن  جو صرف اپنی حکومت کے بارے میں سوچتے ہیں عوام کیلئے نہیں۔ پاکستان زندہ باد

Related Posts