عمران کا لانگ مارچ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مخلوط حکومت کو خود کو سنبھالنا چاہیے کیونکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے نئے انتخابات کرانے کے لیے 25 مئی کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ حکام ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں کہ آیا دھرنے کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے یا نتائج سے قطع نظر پرامن طریقے سے اجازت دی جائے۔

جب سے عمران خان کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے معزول کیا ہے، سابق وزیراعظم وفاقی دارالحکومت میں زبردست طاقت کے مظاہرہ کے لیے متحرک ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے حامی اس وقت تک اسلام آباد میں رہیں گے جب تک پارلیمنٹ تحلیل نہیں ہو جاتی اور نئے انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ ان کے جلسوں میں آنے والے بڑے ہجوم کے پیش نظر پی ٹی آئی مطالبات کو پورا کرانے کے لیے اپنی طاقت کا بھرپورمظاہرہ کرے گی۔

یہ اطلاعات پہلے ہی آچکی ہیں کہ مخلوط حکومت ڈگمگا رہی ہے اور لانگ مارچ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ حکومت تیار نہیں ہے اور انہیں روکنے کے لیے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری یا نظربندی جیسے اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ اگر حکام اس طرح کی کارروائی کا سہارا لیتے ہیں، تو ہم ملک میں مزید افراتفری کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف ڈرامائی تحریک عدم اعتماد میں برطرفی کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے لیے یہ ایک عجیب و غریب صورتحال ہے کیونکہ انہوں نے عمران خان کو بحران پیدا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور انہیں اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔

اگلے انتخابات کے انعقاد کا اختیار حکومت کے پاس ہے لیکن وہ دوسری صورت میں سوچنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ حکومت سخت معاشی فیصلے کرنے پر ابھی تک غیر فیصلہ کن ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے معاشی بحران ان کے لیے چھوڑ دیا ہے، حکومت کی سمجھ نہیں آرہی کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھائیں تو سیاسی طور پر نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے اور اگر قیمتیں برقرار رکھیں تو معیشت کو زوال پذیر دیکھیں۔

اسلام آباد نے کئی لانگ مارچ اور ریلیاں دیکھی ہیں لیکن یہ مختلف ہو سکتا ہے، اس لیے کہ عمران خان اب بھی ایک مقبول شخصیت اور ایک بہت بڑا ہجوم کھینچ سکتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا حکومت نئے انتخابات کے انعقاد کے مطالبے کو مانتی ہے۔ یہ بحران ختم کرنے کے لیے ضروری ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی عمران کو اس کا کریڈٹ ملے گا۔ سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے والا ہے کیونکہ ہم ایک بار پھر دوراہے پر ہیں۔

Related Posts