عمران خان کا جلسہ: کیا پیغام دیا گیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عمران خان کا جلسہ: کیا پیغام دیا گیا؟
عمران خان کا جلسہ: کیا پیغام دیا گیا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان کے جلسے کے تین اہم پہلو ہیں۔ پہلا اس کی بطور جلسہ حیثیت۔ یہ ایک سیاسی اجتماع تھا اور سیاست میں ایسے فیصلہ کن اہم مراحل پر اس طرح کے جلسہ کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔

یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ یہ بہت بڑا اور غیر معمولی اجتماع تھا۔ تحریک انصاف کے ایک دو سب سے بڑے جلسوں میں سے ایک۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی۔ یہ کہنا چاہیے کہ اس کی تعداد ہزاروں میں نہیں تھی بلکہ محتاط الفاظ میں لاکھوں لوگ تھے۔ جلسہ کے شرکا کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں لوگ اس میں پہنچ ہی نہ سکی اور انہیں کئی کلومیٹر تک چلنے کے باوجود جلسہ گاہ میں جگہ نہیں مل سکی۔ ایسا غیر معمولی جلسوں میں ہوتا ہے۔

ایک صحافی دوست جو لاہور سے گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ دو کلومیٹر تک چلنے کے باوجود وہ جلسہ گاہ میں نہیں پہنچ سکے کہ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کی قطاریں ہیں اور جلسہ دراصل پریڈ گراؤنڈ سے میلوں باہر تک پھیل چکا ہے۔ معروف صحافی، اینکر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیس اکتوبر 2011 کا مینار پاکستان والا جلسہ بھی کور کیا جبکہ پریڈ گراؤنڈ کا آج کا جلسہ بھی دیکھا، ان کے مطابق آج کا جلسہ مینار پاکستان والے جلسے سے خاصا بڑا رہا۔ اس اعتبار سے تو پاکستان کے تاریخی جلسوں میں سے ہے۔

میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ سیاست میں اہمیت وہاں ہونے والی تقریروں اور گفتگو کی ہے اور شرکا کی نہیں۔ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں جبکہ اسلام آباد میں اپوزیشن کا جلسہ بھی ہونے والا ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان تصادم کا خدشہ موجود ہے، اس کے باوجود تحریک انصاف کے پرجوش کارکن لاکھوں کی تعداد میں جلسہ میں پہنچے تو یہ ایک اہم علامت ہے۔

اس سے یہ پتہ چلا کہ عمران خان نے جو سیاسی قوت اور اپنا اعتبار، کریڈیبلٹی اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کھوئی تھی، اب عدم اعتماد کی تحریک سے انہوں نے فائدہ اٹھا کر وہ عوامی قوت واپس بحال کر لی ہے۔ ان کا کارکن اور حامی پھر سے ان سے جڑ گیا ہے۔ اپوزیشن جتنی قوت سے حملہ آور ہوئی، اس نے پی ٹی آئی کے ووٹر خاص کر نوجوانوں کو عمران خان کے قریب لانے اور یہ حملہ ناکام بنانے کے لئے کوشاں ہونے میں مدد کی ہے۔

کراوڈ بہت چارجڈ تھا، لوگوں نے نہایت تحمل سیکئی گھنٹے جلسہ گاہ میں انتظار کیا اور تمام تقریریں سنیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پیسے لے کر جانے والے ایسا نہیں کرتے۔ اس کراؤڈ کو دیکھنے والا ہر سیاسی تجزیہ کار یہ جان سکتا ہے کہ یہ ڈائی ہارڈ جذباتی پرجوش سیاسی کارکنوں کا اجتماع ہے۔ جلسہ میں جو کہا گیا یہ کسی بھی سیاسی جلسہ کا بہت اہم پہلو ہوتا ہے کہ اس میں کیا کہا گیا اور انداز کیا تھا۔ تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں نے اپنے مخصوص انداز میں تقریریں کیں۔

اتحادیوں میں سے صرف جی ڈی اے کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے خطاب کیا اور عمدہ گفتگو کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سردست پی ٹی آئی کے ساتھ صرف جی ڈی اے کھل کر ساتھ ہے،ایم کیو ایم اور ق لیگ سودے بازی میں مصروف ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان کا ووٹ عمران خان کے خلاف جائے۔ ویسے تو شیخ رشید کی بھی اپنی الگ پارٹی ہے اور انہیں بھی ایک طرح سے اتحادی سمجھا جا سکتا ہے، اگرچہ وہ تحریک انصاف کا حصہ ہی سمجھے جاتے ہیں۔

مراد سعید، زرتاج گل، پرویز خٹک، علی زیدی وغیرہ کی تقریریں روٹین کی تھیں، مغز سے خالی صرف لفاظی۔ اسد عمر نے البتہ خان صاحب کو جلدی الیکشن کا مشورہ دیا۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا ایک بہت اہم نکتہ یہ تھا کہ بطور وزیرخارجہ ان کے پاس کچھ کلاسیفائیڈ معلومات آئیں جو انہوں نے وزیراعظم کے حوالے کر دیں۔ شاہ محمود نے اپنے مخصوص مصنوعی انداز میں الفاظ چباتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میرے سینے میں بہت راز دفن ہیں اور اگر سینہ چاک کیا تو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ معنی خیز جملہ تھا، بظاہر یہ ملک کے اندر کچھ لوگوں کی طرف اشارہ تھا۔

عمران خان کی تقریر:
سب سے اہم وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا متن تھا۔ ان کے اور ان کے وزرا کی جانب سے بار بار سرپرائز کا ذکر کیا جاتا رہا۔ تقریباً ہر قسم کے سیاسی حلقے کو یہ سرپرائز جاننے میں دلچسپی تھی۔ عمران خان کی تقریر کے دو حصے تھے۔ ان کی تقریر نوے منٹ یعنی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔ پہلے گھنٹے میں وہ اپنے مخصوص روایتی انداز میں بولے۔ بڑی حد تک وہ بور، یکسانیت سے بھرپور اور خان صاحب کے روایتی طنزیہ جملوں پر مشتمل تھی۔

خان صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین اور خاص کر اپوزیشن کے بڑے تینوں لیڈروں (شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن) پر طنزیہ جملے کسے، انہیں چوہا کہا اور وہ سب کچھ بھی جو پچھلے چند ماہ سے وہ کہتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے البتہ اپنے سیاسی کارکنوں اور حامیوں کو اپنی ساڑھے تین سالہ حکومتی کارکردگی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی حکومتی اچیومنٹس گنواتے رہے، بار بار یہ کہا کہ میں نے یہ سب کچھ کیا اور اگر میں مزید پیسے جمع کر لوں، ٹیکس کولیکشن کے ذریعے تو پھر عوام کے لئے مزید سہولتیں فراہم کروں گا وغیرہ وغیرہ۔

تقریر کا آخری حصہ:
عمران خان کی تقریر کے آخری پندرہ بیس منٹ بہت اہم تھے۔ انہوں نے اس میں اپنا وہ ”سرپرائز“ بیان کیا۔ اپنی عادت کے برخلاف عمران خان کچھ باتیں لکھ کر لائے تھے اور انہیں بھی بڑی احتیاط سے پڑھا۔ کئی بار وہ بولتے ہوئے اٹک گئے، ممکن ہے کوئی سطر آخری لمحے میں ڈراپ بھی کر دی گئی ہو۔ نہایت احتیاط سے نپے تلے الفاظ میں عمران خان نے وہ باتیں کیں۔

کیا پیغامات دئیے گئے:
عمران خان نے تین چار باتیں تھوڑا کھل کر، اور کچھ ملفوف انداز میں بیان کیں۔ یہ بتایا کہ ان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش ہو رہی ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ کون سازش کر رہا ہے، اس حوالے سے وہ محتاط رہے،مگر بہرحال یہ واضح کیا کہ ان کے خلاف ایکسٹرنل زرائع متحرک ہیں۔ یہ اشارہ کیا کہ غیر ملکی قوتوں کے ایجنڈے پر پاکستان کے اندر کچھ ذرائع کام کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی حالیہ تحریک عدم اعتماد کو بھی اِن ڈائریکٹ اسی سازش کا حصہ قرار دیا۔

ایک بار یہ بھی کہا کہ باہر بیٹھا بھگوڑا لیڈر (نواز شریف) کے بارے میں ہمیں پتہ ہیکن کن سے ملتا ہے۔ یعنی عمران خان کے خیال میں اس غیر ملکی سازش کے تانے بانے میاں نواز شریف کی ان ملاقاتوں سے جڑتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہ اس سازش کے لئے باہر سے فنڈنگ ہو رہی ہے اور کروڑوں، اربوں ڈالر اس مقصد کے لئے خرچ کئے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے ایک سے زائد بار زومعنی انداز میں یہ کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ کون ہے جو ان مختلف سوچ رکھنے والے اپوزیشن لیڈروں کو اکھٹا کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے بھٹو صاحب کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ بھٹو صاحب نے پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی اپنائی اس لئے امریکہ نے ان کے خلاف سازش کی اور اس وقت کے اپوزیشن رہنماؤں نے مل کر اس میں حصہ ڈالا۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کا کہا کہ ان کی پارٹیوں یعنی جے یوآئی اور مسلم لیگ وغیرہ نے مل کر یہ سب کیا۔

اس کے بعد عمران خان نے طنز بھی کیا کہ جن لوگوں نے بھٹو کو پھانسی دلائی، ان کے ساتھ بھٹو کا نواسا اور داماد مل گیا ہے۔ یعنی قاتل اور مقتول دونوں اکھٹے ہوچکے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان نے دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستانی سیاسی تاریخ کی سب سے اہم تحریک پی این اے کے احتجاج پر شبہ کا اظہار کیا اور وہ بات کہی جو پاکستان میں صرف پیپلزپارٹی کے حامی ہی کہتے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ احتجاجی تحریک بھٹو کی خارجہ پالسیی پر نہیں بلکہ الیکشن دھاندلی پر ہوئی۔ پی این اے کا مطالبہ نئے الیکشن کرانا تھا، خارجہ پالیسی پر تنقید وہ نہیں کرتے رہے۔

سب سے اہم اشارہ وزیراعظم نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے دیا۔ ان کے بقول اس خط میں اس سازش کی تفصیل اور ثبوت موجود ہے، مگر عمران خان نے مزید تفصیل نہیں بتائی بلکہ کہا کہ چونکہ یہ بہت اہم اور حساس معاملہ ہے اور اس کو افشا کرنے سے پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے وہ اس خط کو بتا نہیں سکتے۔

عمران خان نے البتہ یہ کہا کہ آف دی ریکارڈ وہ یہ خط کسی سے شیئر کر سکتے ہیں، جسے اس پر شک ہو۔ انہوں نے یہ بھی کنفرم کیا کہ یہ خط انہیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ذرائع سے ملا۔ ایک اور زومعنی جملہ بولا کہ ہمیں دھمکی دی گئی مگر قومی مفادات کے نام پر۔ یعنی قومی مفادات کو نقصان پہنچے گااس لئے یہ شیئر کیا گیا۔

خط میں کیا ہوسکتا ہے:
ایک بات تو طے ہے کہ یہ کسی انٹیلی جنس ذریعے سے نہیں آئی۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں وزیراعظم کو براہ راست جواب دہ ہیں، آئی ایس آئی اور آئی بی۔ ان کی جانب سے یہ اطلاع یا سازش کی تفصیل آتی تو وہ وزیراعظم تک پہلے پہنچتی اور شاہ محمود قریشی واسطہ نہ بنتے۔ شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ ہیں۔ ان تک کسی سفارتی ذریعہ سے ہی چیز آ سکتی ہے۔ اب دو ہی آپشن ہوسکتی ہیں۔

یا تو یہ خط کسی غیرملکی حکومت یا وزارت خارجہ کی جانب سے حکومت پاکستان کے نام ایک دھمکی آمیز پیغام ہے۔ سفارتی چینل کے ذریعے اس طرح کے پیغام بھیجے جاتے ہیں۔ عام طور سے تحریر کے بجائے انہیں ذاتی طور پر زبانی بتایا جاتا ہے، مگر اس طرح کا خط بھی ہوسکتا ہے۔ ایک آپشن یہ ہوسکتی ہے کہ یہ خط کسی غیر ملکی طاقت کی جانب سے براہ راست دھمکی کے بجائے کسی تیسرے ملک کی جانب سے پیغام ہو اور اس میں یہ اشارہ ہو کہ فلاں فلاں چیز نہ ہوئی تو فلاں عالمی قوت ایسا کر سکتی ہے۔ کچھ واضح، کچھ مبہم انداز میں اس طرح کا پیغام بھی دیا جاتا ہے، کسی تیسرے ملک کے ذریعے تاکہ براہ راست دھمکی دینے والے پر الزام نہ آئے۔

ایک تیسری آپشن بھی ہوسکتی ہے۔ یہ براہ راست کسی غیر ملک کے خط کے بجائے پاکستان کے کسی سفارت ٓخانہ کی جانب سے بھی وزیر خارجہ کے نام پیغام ہوسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمارے کسی سفارت خانہ نے اپنے ذرائع سے ایسی کسی سازش کا پتہ چلایا ہو یا سفارتی انٹیلی جنس ذرائع سے اطلاع ملی ہو۔ فطری طور پر ایسی اطلاع ڈپلومیٹک ذرائع سے وزیرخارجہ کو بھیجی جاتی ہے جو اسے وزیراعظم تک پہنچا دیں۔

وزیرخارجہ نے جلسہ کے بعد ایک ٹی وی چینل پر یہ بات شیئر کی کہ اس خط کے بارے میں اعلیٰ عسکری قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ البتہ انہوں نے سختی سے مزید کچھ بھی بتانے سے انکار کیا اور اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا کہ مقتدر قوتوں کا ردعمل کیا تھا۔ اس خط کا معاملہ بظاہر آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ عمران خان آئندہ دنوں میں اس بات کو مزید آگے بڑھایں گے، ممکن ہے کسی وقت وہ کچھ کھل کر بھی بیان کریں۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان نے اپنی احتجاجی عوامی تحریک کا موڈ سیٹ کر لیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟
جلسہ کا کل ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر کیا اثر ہوگا، اس کے بارے میں جاننے کے لئے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ بظاہر عمران خان اس حوالے سے قدرے مایوس بھی لگے۔ یوں لگ رہا ہے کہ انہیں یقین ہوچکا ہے کہ نمبرز گیم کے حوالے سے وہ شکست کھا چکے ہیں۔ اس لئے اپنی تقریر میں انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی فاتحانہ دعویٰ نہیں کیا۔ ان کی تقریر اپوزیشن لیڈر کی سی تقریر تھی یا پھر وہ لیڈر جو اگلے الیکشن کی تیاری کر رہا ہو۔

تحریک انصاف کی تاریخ میں تیس اکتوبر دوہزار گیارہ مینار پاکستان کے جلسہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ جلسہ بھی بہت اہم ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کے نئے جنم کا باعث بن سکتا ہے۔

Related Posts