عمران خان: اپوزیشن کے ایک سال میں کیا کھویا، کیا حاصل کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان پاکستانی سیاست کے ان کرداروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں غیر جانبداری یا اعتدال سے بات کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔

ان کی طاقتور شخصیت نے جہاں بے شمار مداح اور چاہنے والے پیدا کئے ہیں، وہاں ان کے مخالفین بھی کم نہیں۔ دونوں فریق عمران خان کے بارے میں انتہائی مختلف آرا رکھتے ہیں۔ خاص کر عمران کی کامیابیاں، ناکامیاں ہر ایک کے نزدیک اپنی ہیں۔ ایک کے نزدیک عمران خان کی جو خوبی ہے، دوسرا اسے خامی اور کمزوری کہتا ہے۔
خیر ہم کوشش کرتے ہیں کہ خان کے ایک سالہ اپوزیشن دور کا کسی عصبیت کے بغیر جائزہ لیں۔

ناکامیاں
پہلے عمران خان کی ایک سال میں ناکامیوں کو دیکھتے ہیں،انہوں نے کیا کھویا؟

دونوں صوبائی حکومتوں سے محرومی
سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ وہ حکومت سے باہر ہوگئے ۔ مرکز کی حکومت تو عدم اعتماد کے ذریعے ان سے چھینی گئی، مگر پنجاب اور کے پی دو صوبوں میں وہ حکمران تھے۔ پنجاب میں انہیں حکومت ملنے میں ایک عدالتی فیصلے کا اہم کردار ہے، جس نے سیاست میں لوٹوں کا کردار تقریباً ختم کر دیا۔ خان صاحب نے پنجاب اور کے پی میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ ازخود کیا۔ انہیں بہت سے ہمدردوں نے سمجھایا کہ ایسا نہ کریں۔

مشورہ نہ مانا گیا
ایک اطلاع کے مطابق چودھری مونس الٰہی اور پرویز الٰہی نے اس وقت کے اہم ترین شخصیت سے ملاقات کے بعد خان کو سمجھایا کہ وہ پنجاب اسمبلی نہ توڑیں کیونکہ جنرل الیکشن کا کوئی پتہ نہیں۔ اسمبلی توڑی تو پھر نگران حکومتیں ایک سال سے زیادہ عرصہ بھی رہ سکتی ہیں۔ عمران خان نے ہر ایک کی بات سنی، مگر اپنی مرضی چلائی اور اسمبلیاں توڑ دیں۔ اس سے وہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپوزیشن میں آ گئے اور ہر جگہ صوبائی انتظامیہ اور پولیس ان کے خلاف سرگرم ہوگئی ۔ اب تو خیر آزاد کشمیر کی حکومت بھی چھن گئی۔

مخالف نگران حکومتوں کا بننا
نگران صوبائی حکومت کے معاملے میں بھی لگتا ہے خان صاحب سے چوک ہوگئی۔ جب ن لیگ نے محسن نقوی کے ساتھ وفاقی مشیر احد چیمہ کے نام نگران وزیراعلیٰ کے لئے تجویز کئے تو خان صاحب اور ان کے مشیروں کو چونک جانا تھا۔ غیر جانبدار نگران حکومت کے لئے وفاقی مشیر کانام کون دیتا ہے؟اس کا مقصد یہی تھا کہ یہ نام رد کر دیا جائے اور دوسرے نام کونگران وزیراعلیٰ بنا دیا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی جانب سے نام برے نہیں دئیے گئے، مگر ان میںسقم موجود تھا، ایک صاحب کی ریٹائرمنٹ کا ایشو بھی چلا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ایسے بہترین نام تجویز کئے جاتے کہ الیکشن کمیشن کے لئے انہیں مسترد کرنا مشکل ہوجاتا۔ ایسے غیر جانبدار اور غیر متنازع نام موجود تھے جنہیں مسترد کرنا الیکشن کمیشن کے لئے آسان نہ ہوتا۔
کوئی ایسا شخص بھی چنا جا سکتا تھا جو ن لیگ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو، مگر وہ بااصول ہو اور پولیس ، انتظامیہ کو اس درجہ بے رحمی سے استعمال نہ کرنے دے ، جیسا کہ موجودہ نگران وزیراعلیٰ نے کیا۔خان صاحب اور ان کا تھنک ٹینک لگتا ہے نگران حکومتوں والی گیم سمجھ ہی نہیں پائے۔

کے پی میں مزید عجب ہوا
کے پی میں تو مزید حیران کن کام ہوا، وہاں اتفاق رائے سے نگران وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ ان صاحب نے مگر اپنی نگران کابینہ میں باقاعدہ جے یوآئی، اے این پی، پی پی اور ن لیگ کے سابق اراکین اسمبلی اور سابق وزرا تک کو شامل کر لیا۔ پرویز خٹک سے جواب طلبی کرنی چاہیے تھی کہ آپ کو یہی بااصول ہیرا ملا تھا پورے صوبے میں؟

اسٹیبلشمنٹ سے دوری
وجوہات جو بھی ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے خاصے طویل فاصلے پر جا چکے ہیں۔ ان دونوں کے مابین گہری خلیج حائل ہے۔ خان صاحب کے سخت بیانات اور تند وتیز حملے اس کی بنیادی وجہ بنے۔ میرجعفر، میر صادق سے ”نیوٹرل جانور ہوتے ہیں“ اور پھر ”ڈرٹی ہیری سے سائیکوپیتھ “تک کہنا بہرحال اہم شخصیات کو ناراض کرنے کے مترادف ہے۔
چیف کے تقرر کے معاملے پر بھی انہوں نے کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، صدر مملکت کو زمان پارک بلایا او رپھر سمری پر دستخط ہوئے۔ اس سب سے تحریک انصاف اور خان صاحب کو کیا حاصل ہوا؟ شائد کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی کھلی مخالفت کے بعد کسی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آنا آسان نہیں رہتا۔ یہ ناممکن تو نہیں ( اٹھاسی میں محترمہ بے نظیر بھٹوبھی وزیراعظم بنی تھیں)، مگر یہ مشکل ضرور ہے۔

عمران خان کی کامیابیاں
ماضی کا دھل جانا
سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کا اب کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ خان صاحب نے دوران حکومت بہت سی غلطیاں کیں، کئی نہایت برے تقرر کئے، نااہل ، نالائق لوگوں پر بھروسہ کیا، انہیں اہم منصب دئیے۔ یہ سب غلطیاں آج کسی کو یاد ہی نہیں۔ خان صاحب کے یہ سیاسی گناہ یا غلطیاں جو بھی انہیں کہیں، وقت کے بہتے ریلے نے سب کچھ دھو ڈالا ہے۔ آج جو بھی بات کررہا ہے وہ عمران خان کے اس ایک سال کو موضوع بناتا ہے۔ یہ خان کی بڑی کامیابی ہے، کمزور پہلوﺅں کو چھپانے میں وہ کامیاب رہے۔
نیا سیاسی جنم
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا نیا سیاسی جنم ہوا ہے۔ انہوں نے ایک سال میں بہت کچھ سیکھا اور اس سے کئی سو گنا زیادہ حاصل کیا۔ وہ اس وقت ملک کی طاقتور ترین سیاسی شخصیت ہیں، بھرپور عوامی پزیرائی اور قوت ان کے ساتھ ہے۔ ان کے مخالفین کو بھی یقین ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں الیکشن ہوا تو وہ پنجاب اور کے پی میں دو تہائی اکثریت لے سکتے ہیں جبکہ وفاق میں بھی وہ اگر دو تہائی نہ تو اچھی بھلی اکثریت سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ عمران خان نے ستانوے میں سیاست شروع کی تھی، وہ اپنے پورے کیرئر کے عروج پر آج ہیں۔
پارٹی کو قائم رکھنا
حکومت سے الگ ہونے کے بعد اصل بڑا چیلنج یہ تھا کہ شائد شدید حکومتی دباﺅ اور جبر کے باعث تحریک انصاف قائم نہیں رہ پائے گی، اس کے بہت سے لوگ تتر بتر ہوجائیں گے، پارٹی ٹو ٹ جائے گی اور مختلف دھڑے بن جائیں گے۔ ہوا اس کے برعکس۔ تحریک انصاف نہ صرف جڑی ہوئی، متحد ہے بلکہ یہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوئی ہے۔ اس کے کارکنوں کو برگر کہا جاتا تھا، زمان پارک میں پولیس کا ظلم وستم سہہ کر انہوں نے اپنی سخت جانی بھی منوا لی ہے۔
اپنی ساکھ برقرار رکھنا
عمران خان ساڑھے تین سال وزیراعظم رہے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کے انگلی کے اشارے سے اربوں کے کنٹریکٹ ادھر اُدھر ہوتے ہیں، وہ اگر چاہے تو صرف ٹرانسفر پوسٹنگ میں کروڑوں، اربوں روپے پکڑ لے، جن کا کوئی ثبوت بھی نہیں رہے گا۔ اس سب کے باوجود اگر پی ڈی ایم حکومت ایک سال میں عمران خان کے خلاف کوئی کرپشن سکینڈل نہ لا سکی۔ انہیں مجبوراً توشہ خانہ کی گھڑیوں پر اکتفا کرنا پڑے یا پھر بشریٰ بی بی کی عدت جیسے ذاتی اور سیتا وائٹ کی بیٹی جیسے تیس سالہ پرانا ایشوز کے گڑھے مردے اکھاڑنے پڑے ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ عمران خان سرخرو رہا ۔یاد رہے کہ یہاں عمران خان سے صرف دس سال پہلے ایک ایسا وزیراعظم بھی رہا ہے جس نے اپنی گھڑی بیچ کر الیکشن لڑا اوراقتدار میں آنے کے صرف ایک سال میں اربوں کی جائیداد مبینہ طور پر ان کے پاس آ گئی۔
ریاستی جبر سے بچاﺅ
عمران خان کے خلاف جہاں کئی منصوبے تھے، ان میں سے ایک یہ بھی رہا کہ انہیں گرفتار کر کے توڑا جائے اور ہتھکڑیاں لگیں تصاویر وائرل کی جائیں تاکہ ان کے آئرن مین ہونے کا تاثر توڑا جائے۔ قدرت ان پر مہربان تھی، ان کے کارکنوں نے ان کی خاطر جان کی بازی لگا دی۔ پولیس نے زمان پارک پر متعدد حملے کئے، شدید ترین کریک ڈاﺅن کیا، مگر وہ انصافین کارکن کو پسپا نہ کر پائے ۔ آپ چاہے تو اسے جو مرضی کہہ لیں، تنقید کریں یا تعریف۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ وزیرداخلہ راناثنااللہ، مریم نواز شریف، بیشتر پی ڈی ایم رہنماﺅں اور صوبائی نگران انتظامیہ کی تمام تر حسرتیں دل میں رہ گئیں۔ آگے کی اللہ جانے، ابھی تک یہ سب عمران خان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ عمران خان ایک خطرناک قاتلانہ حملے میں بھی سروائیو کر گئے، یہ بھی ان کی خوش بختی تصور ہوگی ۔
ڈرائیونگ سیٹ پر خود قابض رہنا
ایک عالمی شہرت یافتہ ٹرینر نے کہا تھا کہ اگر کسی دوسرے کے کسی اقدام سے آپ مشتعل ہو کر ردعمل کی نفسیات میں چلے جاتے ہیں تو یوں سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہی بیٹھا ہے۔
ایک سال میں عمران خان نے دکھا دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھا ہے۔ اس نے سال بھر مختلف ایشوز پیدا کئے، انی شیٹو(Initiative)اپنے ہاتھ میں رکھا اور حکومت کو مسلسل دفاع اور جواب میں لگائے رکھا۔ اس کا مقصد انہیں انگیج رکھنا اور دباﺅ ڈالے رکھنا تھا۔ اس مقصد میں عمران خان کامیاب رہے۔ پی ڈی ایم کی بدقسمتی کہ ان کا سوچا سمجھا اقدام بھی ان کے خلاف جاتا رہا۔ انہوں نے بڑی کیلکولیشن کے بعد نو حلقے چنے اور ان میں الیکشن کرائے، عمران خان ہر جگہ کھڑا ہوا اور آٹھ حلقوں سے جیت بھی گیا۔ پی ڈی ایم کو اس سے ایسا شدید دھچکا پہنچا کہ انہوں نے اب کسی بھی ضمنی الیکشن میں نہ لڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

آخری جوا
دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کا بڑا جوا تھا۔ بظاہر یہ ان کے خلاف گیا ہے۔پچھلے تین ماہ میں عمران خان سمیت ان کے بہت سے ساتھیوں اور کارکنوں کو اس سے سخت پریشانی اور تکلیف لاحق رہی۔تاہم اگر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوجاتے ہیں یا ان کی وجہ سے جلد جنرل الیکشن (جولائی، اگست 2023)کی صورت بنتی ہے تو پھر ان کا یہ بڑا جوا ان کی بڑی کامیابی بن جائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوپاتا اور کسی نہ کسی طرح پی ڈی ایم الیکشن کو لمبا لے جائے، اکتوبر کی ڈیٹ دی جائے ، جسے بعد میں بڑھانا ممکن ہو تو پھر یہ خان صاحب کی ناکامی تصور ہوگا۔
حرف آخر یہ کہ ایک سالہ اپوزیشن میں عمران خان نے کچھ کھویا بھی ہے، مگر پایا زیادہ ہے۔ بطور سیاستدان انہیں بہت کچھ ملا ہے۔ نئی سیاسی طاقت، عوامی مقبولیت، کارکنوں کی جانفروشی اور مستقبل میں الیکشن جیتنے کا امکان۔

Related Posts