کیا وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت 5 سال پورے کر پائے گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹی ایل پی کے خلاف عوام اور اداروں پر حملوں کے باعث ایکشن لیا گیا۔وزیرِ اعظم
ٹی ایل پی کے خلاف عوام اور اداروں پر حملوں کے باعث ایکشن لیا گیا۔وزیرِ اعظم

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک کے 22ویں وزیرِ اعظم کی حیثیت سے 18 اگست 2018ء کو عہدہ سنبھالا جس کے بعد سے اب تک 28 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جھنڈے تلے ملک کی 11 سیاسی جماعتیں عمران خان کے خلاف متحد ہوچکی ہیں جو پوری قوت سے  احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کے ذریعے اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں۔

خود وزیرِ اعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد اور معاونینِ خصوصی متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال ہر حالت میں پورے کرے گی۔ آئیے موجودہ پی ڈی ایم تحریک، سینیٹ الیکشنز اور حکومت کی اب تک کی کارکردگی کے تناظر میں اِس دعوے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

مدینہ کی ریاست کا نعرہ

متعدد بار تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس کی بنیاد علامہ اقبال کے فلسفے اور اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔

دو نہیں ایک پاکستان کا تصور عوام کیلئے خوابناک ثابت ہوا اور سن 2018ء کے الیکشن میں عوام نے بڑھ چڑھ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے۔ خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ میں بھی پی ٹی آئی کے متعدد امیدوار کامیاب ہوئے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کا احتساب، نظامِ انصاف کو مستحکم کرنے، پولیس کی اصلاحات اور آزاد عدلیہ اور آزادئ اظہارِ رائے کا وعدہ کیا جبکہ عوام آج پاکستان کے نام سے فلاحی ریاست کی تعمیر کے وعدے کو وفا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تحریک

سن 2018ء کے عام انتخابات پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے متحدہ محاذ قائم کیا جس کا سربراہ مولانا فضل الرحمان، جنرل سیکریٹری شاہد خاقان عباسی، سینئر نائب صدر راجہ پرویز اشرف اور ترجمان اے این پی رہنما میاں افتخار حسین کو مقرر کیا گیا۔

 عمران خان کے خلاف صف آراء اتحاد پی ڈی ایم میں پی پی پی، پی ایم ایل این، جے یو آئی (ایف)، اے این پی، بی این پی (مینگل)، اے این پی (ولی)، جمعیت اہلِ حدیث، جے یو پی، نیشنل پارٹی (بزنجو)، ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی سمیت 11 سیاسی جماعتیں شریک ہیں۔ 

سینیٹ  میں قبل از وقت انتخابات کا مسئلہ اور شو آف ہینڈز

سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ ایک عام سی بات بن چکی ہے جسے روکنے کیلئے وفاقی حکومت نے شو آف ہنیڈز کے ذریعے انتخابات کا اعلان کیا جس پر اپوزیشن جماعتیں ناراض نظر آتی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کیلئے رجوع کرسکتے ہیں تاہم قانون سازی کیلئے اپوزیشن سے اتفاقِ رائے ضروری قرار دیا گیا ہے۔

سینیٹ الیکشنز اس حوالے سے اہم ہیں کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں جگہ اتحادیوں کے سہارے فیصلے کرنے پر مجبور ہے جبکہ سینیٹ الیکشن کے بعد یہ صورتحال یکسر بدل سکتی ہے کیونکہ مارچ میں 104 میں سے 54 سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے۔ 

شو آف ہینڈز پر مریم نواز کا بیان

پی ڈی ایم کی اہم رہنما اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ سینیٹ الیکشنز میں شو آف ہینڈز کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ 500 نشستیں ضمنی انتخابات کے ذریعے پر نہیں کی جاسکتیں۔

جاتی امراء میں خطاب کے دوران مریم نواز نے 2 روز قبل کہا کہ حکومت ایک ماہ پہلے سینیٹ الیکشن کرائے یا بعد میں، حکومت نہیں بچے گی۔ پی ٹی آئی کو اپنے ہی اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی پر کوئی بھروسہ نہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ سرکاری اراکینِ اسمبلی اپنے ہی حلقوں میں جانے کے لائق نہیں۔ شو آف ہینڈز ایک آرڈیننس کے ذریعے لا کر آئین کو بلڈوز نہیں کیا جاسکتا۔ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ مایوس نہ کرے۔ حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ 

معیشت درست راہ پر گامزن

رواں برس اکتوبر کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستانی معیشت درست راہ پر چل رہی ہے۔ مالی سال کے پہلے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 42 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز جمع ہوئے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 61 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز سے کم ہو کر 10 کروڑ ڈالر رہ گیا۔

بعد ازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 24 اگست کو بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اکاؤنٹ سرپلس 42 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز ہے۔ 12 نومبر کو تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے اسے اہم کامیابی قرار دیا۔

اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ 17 سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا۔ ہماری برآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔ روپے کی قدر مستحکم ہورہی ہے۔ یہ سب مثبت اشاریے ہیں۔حکومت آئی تھی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز تھا۔ 

مہنگائی کا مسئلہ 

قومی ادارۂ شماریات نے آج ہی یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ مہنگائی ک یشرح میں صفر اعشاریہ 22 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 20 اشیاء کی قیمتیں بڑھیں، 8 کی کم ہوئیں جبکہ 23 اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں۔

ہفتہ وار مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے ادارۂ شماریات نے بتایا کہ انڈوں کی فی درجن قیمت میں رواں ہفتے 4 روپے 33 پیسے اضافہ ہوا، بجلی کی قیمت فی یونٹ 20 پیسے بڑھ گئی۔ لہسن کی قیمت 11 روپے سے زائد بڑھی۔ پٹرول 3 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 3 روپے فی لٹر مہنگا ہوگیا۔

استعفیٰ دو حکومت گراؤ تحریک اور لانگ مارچ

عوام کے سب سے بڑے مسئلے یعنی مہنگائی کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم استعفے دے کر حکومت گرانے کی تحریک شروع کرچکی ہے جبکہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرکے دھرنا دینے سمیت دیگر آپشنز بھی زیرِ غور ہیں۔

اِس حوالے سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک حکومت کے خلاف فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اگلا مرحلہ استعفے دینے اور لانگ مارچ کا ہوگا۔اگر 150 استعفے آ گئے تو پارلیمنٹ نہیں چل سکتی۔

دوسری جانب وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ مایوسی پھیلانے والے لوگ مایوس رہیں گے، ملکی ایکسپورٹس میں اضافے نے 10 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ پاکستان خوشحالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پی ڈی ایم کچھ نیا سوچے

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ن لیگ کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو چاہئے کہ نئی چال سوچے یا پھر نیا کھیل کھیلے۔ استعفے فضل الرحمان اور مریم نواز کی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن ن لیگ میں استعفوں کی دوڑ میں بہت سے نام پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ سینیٹ الیکشن اگر فروری میں ہوجائیں تو فرق نہیں پڑتا۔ آئین میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کا وقت طے ہے۔ پی ڈی ایم قیادت استعفوں کی دھمکیاں کسی اور کو دے۔ 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی وضاحت

گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کیا کہ 11 فروری سے 11 مارچ تک سینیٹ انتخابات کرانے کا اختیار رکھتے ہیں، الیکشن کمیشن سینیٹ الیکشن قانون کے تحت 30 روز میں انتخابات کرا سکتا ہے۔

کمیشن نے کہا کہ11 مارچ کو سینیٹ کے آدھے اراکین ریٹائر ہوجائیں گے جبکہ 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوگا جس کے بعد نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ حلف اٹھائیں گے۔ 

حکومت 5 سال پورے کرے گی یا نہیں؟

استعفے دینے کی صورت میں حکومت کو اختیار ہے کہ نئے الیکشن کروا کر تحریکِ انصاف کے نئے اراکینِ اسمبلی و سینیٹ کو سیٹوں پر لائے اور حکومت کو مضبوط بنائے۔

وزیرِ سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے رواں برس جولائی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ والوں کو آج کل پارٹی میں کوئی نہیں سنتا۔ باہر کون سنے گا؟ سب سے پہلے یہ لوگ اپنا اپنا لیڈر تلاش کرکے پھر وزیرِ اعظم سے استعفیٰ لینے کی بات کرسکتے ہیں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن کو تتر بتر قرار دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن کرنی کس نے ہے؟ پہلے یہ فیصلہ کر لیں۔ حکومت ہر حال میں چاہے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، 5 سال پورے کرکے رہے گی۔ 

Related Posts