اور اب آئی ایم ایف کا ڈو مور

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاکستان سے “ڈو مور” کا کوئی انت و اختتام نہیں ہے، تازہ ترین “ڈومور” میں اس عالمی ساہوکار ادارے کی جانب سے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے نفاذ، ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے جیسے مطالبے سامنے آئے ہیں۔
اب یہ تو واضح ہے کہ حکومت کو یہ شرائط پوری کرنی ہیں، ورنہ نیا بیل آؤٹ پیکیج نہیں ملے گا۔ پیکیج نہیں ملے گا تو حکومت ملک کیسے چلائے گی، حسابات جاریہ کے اخراجات کہاں سے پورے کرے گی۔

دوسری طرف شرائط پوری کرنے کی صورت میں افراط زر میں اضافہ ہوگا، جو پہلے ہی 24 فیصد کے قریب ہوچکا ہے اور پاکستانیوں، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے معیارِ زندگی کو بری طرح متاثر کرے گا۔ اس صورتحال میں پیداوار اور کھپت کے اخراجات میں اضافہ اور لوگوں کی قوت خرید میں کمی جیسے سنگین مسائل سر اٹھائیں گے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ حکومت پاکستان نے فروری 2023 میں 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا ایک بل منظور کیا، اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ اب بھی آئی ایم ایف کے ہدف سے حکومت کا مالیہ خاصا پیچھے ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زراعت، صنعت اور تجارت جیسے شعبوں کی جانب سے ٹیکسز میں اضافے کی مزاحمت کی جا رہی ہے۔

اب نئی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کے سخت ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، اپوزیشن جماعتیں واضح طور پر آئی ایم ایف کا دباؤ مسترد کرنے اور عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی مخالفت کے ساتھ میدان میں آئیں گی، جس کے نتیجے میں حکومت کئی اطراف سے دباؤ میں گھر کر قوت فیصلہ ہی کھو دے گی۔
حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور عوام کے مفادات کے تحفظ کا دو طرفہ چیلنج درپیش ہے۔ ایسے میں حکومت کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے، تاکہ عوام پر بھی اضافی بوجھ نہ پڑے اور آئی ایم ایف کے اہداف بھی کسی طرح پورے کرلیے جائیں۔

اس مقصد کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ٹیکس چوری روکنے اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ مزید برآں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ نئے ٹیکس منصفانہ اور ترقی پسندانہ ہوں، جس میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسی عوامی خدمات کے لیے بھی فنڈ مختص کیا جائے۔

نیز اس تمام کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کے معیار زندگی پر نئے ٹیکسوں کے منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے بھی پرو گروتھ اور غریب پرور پالیسیاں ناگزیر ہیں۔

Related Posts