ایپکو کمپنی کو پلاٹ کی الاٹمنٹ سے قومی خزانے کو 2ارب 58کروڑ50لاکھ کا نقصان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Illegal allotment of plot by Epco Company Margalla Tower

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کے پوش ترین سیکٹر کے مرکزی تجارتی مرکز ایف ٹین میں وفاقی ترقیاتی ادارہ کے افسران کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خلاف ضابطہ ایپکو کمپنی مارگلہ ٹاورکو پلاٹ الاٹمنٹ کی مد میں فائدہ دے کر قومی خزانے کو 2ارب 58کروڑ50لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔

11ہزار7سو50 سکیئر یارڈ پلاٹ کی ریزرو پرائس سے 28 فیصد کم بولی منظور کرکے الاٹی کو فی سکیئر یارڈ 2لاکھ20ہزار روپے فائدہ دیا گیا اور کمپنی نے اضافی ملحقہ سی ڈی اے پراپرٹی پر بھی قبضہ کر رکھا ہے جبکہ نیب نے 2016میں کیس ٹیک اپ کیا لیکن 4سال گزرنے کے باوجود تاحال کوئی کاروائی نہ سامنے آسکی۔

دستیاب آڈٹ دستاویزات کے مطابق سی ڈی اے فنانس ونگ نے ایف ٹین مرکز پلاٹ نمبر 1(11ہزار7سو50سکیئر یارڈ)کی سمری بورڈ میٹنگ میں پیش کی جس میں اس پلاٹ کی ریزرو پرائس 1لاکھ 96ہزار فی سکیئر یارڈ مقرر کی اور پری کوالیفکیشن کے ذریعے ٹوکن نمبر 11 کی جانب سے 1لاکھ41ہزارروپے فی سکیئر یارڈ کی بولی کو بڑی بولی قرار دیکر منظور کر لیا گیا جو ریزرو پرائس سے بھی 28 فیصد کم تھی اور مارکیٹ ریٹ 3لاکھ 61 ہزار مقرر تھا ۔

اس طرح فی سکیئریارڈ 2لاکھ 20 ہزار کا فائدہ سی ڈی اے افسران کی جانب سے ایپکو کمپنی(مارگلہ ٹاور)کو دیدیا گیاجبکہ اسی دن اس سے ملحقہ پلاٹ نمبر 11-Aسیکٹر ایف ٹین مرکز کی بولی 3لاکھ 61ہزار فی سکیئر یارڈ آئی تھی جس سے افسران کی ملی بھگت اور اختیارات کا ناجائز استعمال دیکھا جا سکتا ہے ایم ایس APCO(مارگلہ ٹاور)نے 40فیصد پریمیم 662.700ملین روپے جمع کرائے اور باقی 60فیصد رقم 994.050ملین روپے بھی جمع نہیں کرائے گئے اور کمپنی نے تعمیرات کرکے اربوں روپے میں پلاٹ بھی فروخت کر چکے ہیں ۔

2016میں سی ڈی اے نے عدم ادائیگی پر پلاٹ منسوخ کر دیا لیکن کمپنی نے اسی روز اسلام آباد ہائیکورٹ سے بحالی کروالی اور کمپنی نے اضافی ملحقہ سی ڈی اے پراپرٹی پر قبضہ کر لیا سی ڈی اے نوٹس جاری کرنے کی حد تک محدود رہا جبکہ 12اگست2016کو نیب راولپنڈی نے ان غیر قانونی اقدامات کی انکوائری کی منظوری دی لیکن 4گزر گئے تاحال کوئی کاروائی نہ سامنے آسکی۔

آڈٹ نے 2017میں سی ڈی اے حکام کو آگاہ کرتے ہوئے جواب مانگا جو آج تک آڈٹ حکام کو نہ مل سکااور جن سی ڈی اے بورڈ اور ماتحت ملوث افسران کے خلاف کاروائی تجویز کی تھی اُس پر بھی کوئی عملی کاروائی نہ ہوسکی۔

مزید پڑھیں:اسلام آبادہائیکورٹ کاپانی بند، چیف جسٹس برہم، چیئرمین سی ڈی اے طلب

جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غلط کام کرنے کے بعد اسے کیسے قانونی بنانے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کفایت شعاری اپنانے اور کرپشن کے خاتمے کا عزم رکھنے والی حکومت کیا اقدامات اُٹھاتی ہے اور قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی ریکوری کرتی ہے۔

اس ضمن میں چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ مذکورہ کیس مجھ سے پہلے کا ہے میں نے ترجمان سی ڈی اے کو ہدایت کر دی ہے وہ اس بارے جواب دیں گے تاہم ترجمان سی ڈی اے نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ متعلقہ شعبے والے میرا فون نہیں سن رہے اس سے سی ڈی اے انتظامیہ کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Related Posts