مسکان پاکستان میں ہوتی تو ماردی جاتی۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہنوں پر نقش ہوجاتے ہیں اور زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان واقعات کو یاد کرکے انسان کبھی تو سبق حاصل کرتا ہے کبھی عبرت لیکن کچھ نہ کچھ سیکھتا ضرور ہے ۔

ایسا ہی ایک واقعہ چند روز قبل بھارت میں پیش آیا جب ایک باحجاب طالبہ کو چند ہندو نوجوانوں نے ہراساں کیا جس پر اس باہمت لڑکی نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے اور کالج کے پرنسپل اور ساتھی طلبہ نے بھی اس لڑکی کو تحفظ دیا ۔ اس واقعہ کے بعد مسکان نامی اس مسلمان لڑکی کو پوری دنیا میں شہرت ملی اور اس واقعہ نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک کے معاملے کو ایک بار پھر پوری شدت سے اجاگر کیا۔

جہاں تک بات پاکستان کی ہے تو یہاں اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ابھی پیر 21 مارچ کو سکھر میں ہونیوالے واقعہ کو ہی دیکھ لیں ۔ یہاں پاکستان کے حقیقی وارثوں کو ایک ہندو لڑکی پسند آئی۔ موقع یا مال غنیمت کی تاک میں بیٹھے لاشاری برادری کے جنگجوؤں نے ہندو قلعہ فتح کرنے اور اپنی جنسی جبلت اور ایک معصوم پوجا کماری کا شکار کرنے کیلئے اس کے گھر پر حملہ کیا۔

ساتھیوں کے ساتھ مسلح ہوکر گھر میں موجود اکیلی پوجا کو آسان شکار سمجھ کر جانیوالے جنسی زیادتی اور اغواء کی نیت سے گھر میں داخل ہوئے تو پوجا نے مزاحمت کی جس پر لاشاری برادری کے بہادرجنگجوؤں نے اس معصوم کو بے رحمی سے گولیاں مار کر قتل کردیا۔

افسوس کہ اگر وہ لڑکی ان جنگجوؤں کے ہاتھ آجاتی تو ایک اور ہندو قلعہ فتح ہوجاتا اور اس معصوم کو کیا پتہ تھا کہ اگر وہ مزاحمت نہ کرتی تو سیکڑوں ہندو اور مسیحی لڑکیوں کی طرح چند روز بعد اس کی تصویریں بھی اخباروں میں چھپتیں کہ ایک اور نوجوان غیرمسلم لڑکی مسلمان ہوگئی۔ اس میں قصور پوجا کماری کا ہی ہے کہ کیوں اس نے عزت بچانے کیلئے جان گنوانے کو ترجیح دی ؟

پاکستان میں اقلیتیں اتنی محفوظ ہیں کہ جب جہاں جس کا جی چاہتا ہے وہ ہندو اور مسیحی بچیوں کو اغواء کرکے پہلے اجتماعی طور پر جنسی تسکین کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس زندہ لاش کو مذہب کی آڑ میں چھپا دیا جاتا ہے اور قانون ان بہادروں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ملک خدا داد پاکستان میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ کیا ہوا اگر کبھی شغل میں کسی کا گھر ہتھیانے، بدلہ لینے یا نیچا دکھانے کیلئے توہین مذہب کے الزام لگاکر چند مسیحیوں یا ہندوؤں کو ماردیا جاتا ہے۔ ویسے تو اقلیتیں محفوظ ہیں ناں؟

ابھی چند روز پہلے لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں محمد بلال نامی شخص نے ون ان کرائسٹ چرچ کی صلیب پر چڑھ کر مذہبی نعرے لگانا شروع کر دیے اور صلیب کو گرانے کی کوشش کی اور چرچ کی بے حرمتی کی۔ یہ افسوس ناک واقعہ دن دیہاڑے پیش آیا گوکہ پرامن مسیحیوں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کردیا اور پولیس نے مقدمہ بھی درج کرلیا ہے لیکن سرعام ہونے والے اس واقعہ کے ملزم کو نہ سزا ہوگی نہ مسیحی اس واقعہ پر متحد ہونگے۔

آفرین ہے مالک کے مالکوں پر کہ کہیں کوئی جھوٹی افواہ بھی اڑ جائے تو جتھوں کے جتھے جمع ہوکر اقلیتوں کے خاندانوں کے خاندان مٹادیتے ہیں۔اقلیتوں کیلئے پرامن پاکستان میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔

معصوم پوجا کماری کا باپ رو روکر دہائیاں دے رہا ہے کہ اب تو یقین کرلو کہ پاکستان میں ہندو اور مسیحی بچیوں کو پہلے اغواء کیا جاتا ہے پھر عصمت دری کے بعد مذہب کی آڑ لیکر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس واقعے پر مسکان یاد آگئی کہ پاکستان میں تو اقلیتیں زور سے سانس بھی نہیں لے سکتیں ۔ اگر مسکان پاکستان میں کسی مذہبی اقلیت کا حصہ ہوتی اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی جرات کرتی تو کب کی مار دی جاتی۔

Related Posts