ہَنٹ عمران خان :چوتھے راﺅنڈ میں کیا ہونے جا رہا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہَنٹ عمران خان یا ”عمران خان کو قابو کرو“ وہ پلان ہے جس پر پچھلے کئی ماہ سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ اس تفصیل میں جانا ضروری نہیں کہ یہ پلان کس نے بنایا ہے اور کون عملدرآمد کر رہا ہے، یہ البتہ بتانا ضروری ہے کہ اس میں حکمران سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کا پورا پورا حصہ ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اس سے بری الذمہ نہیں قرار پاتے۔

اس پلان کے ابتدا ہی میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ عمران خان پر یکے بعد دیگر ے اتنے مقدمات قائم کر دئیے جائیں کہ وہ ہرطرف عدالتوں میں پیشی کے لئے بھاگتا پھرے اوراتنا تھکے کہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے اس کے پاس وقت اور فرصت ہی میسر نہ ہو۔ یہ بات ن لیگ کے بڑبولے رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر خواجہ آصف نے ایک ٹی وی شو میں کہہ دی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کو بھگا بھگا کر تھکائیں گے۔

اس پلان پر کسی حد تک عملدرآمد ہوا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ کیسزکمزور تھے اور ان میں جان نہیں تھی تو خان کو فوری ریلیف مل جاتا۔پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں بھی رکاوٹ تھیں کہ پولیس ان کے ماتحت تھی۔ پچھلے سال پچیس مئی کو عمران خان نے لانگ مارچ کیا تھا تو راناثنااللہ کی ہدایت پر پنجاب پولیس نے لاہور میں انصافین کارکنوں پر زبردست شیلنگ وغیرہ کی، اس لئے کہ تب ن لیگی حکومت تھی۔ بعد میں جب چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے تو تحریک انصاف کے لئے چیزیں آسان ہوتی گئیں۔

دوسرا راﺅنڈ
دوسرا راﺅنڈ تحریک انصاف کی جانب سے دونوں صوبائی حکومتوں کی تحلیل اور ان کی مخالف نگران حکومتیں بننے سے شروع ہوا۔ عمران خان کو لگتا ہے اس کا اندازہ نہیں ہوا تھاکہ یہ غلطی کس قدر بھاری پڑ سکتی ہے۔ وہ اپنے قانونی ماہرین کی مشاورت سے سمجھتے تھے کہ نوے دنوں میں الیکشن لازمی ہوجائیں گے اور اتنا وقت تو وہ گزار ہی لیں گے ، خاص کر جب الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد کے آخری تین چار ہفتے سیاسی کمپین میںچلے جائیں گے۔
یہ سب مگر خام اندازے نکلے۔ پی ڈی ایم اور ان کے غیر سیاسی سہولت کاروں نے طے کر لیا تھا کہ وہ الیکشن کسی بھی صورت نہیں کرائیں گے۔ ویسا ہی ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ زماں پارک میں بھی پولیس آپریشن کرتی رہی اور انصافین کارکنوں کے ساتھ ان کا ٹکراﺅ، آنکھ مچولی چلتی رہی۔ یہ بات ہر ایک کو سمجھ آ چکی ہے کہ وہ سب سائیکلوجیکل وار فیئر کا حصہ تھا۔ تحریک انصاف کے پرجوش ، جذباتی کارکنوں کو یہ احساس دلانا کہ وہ اپنی مزاحمت سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پسپا کر سکتے ہیں۔ یہ احساس ان میں اس قدر شدید ہوتا گیا کہ جب نومئی کی گرفتاری ہوئی تو ان کارکنوں کے ایک حصے کو ایسا لگا کہ وہ اپنے جوش وجنون میں زیادہ بڑی سطح اور زیادہ اہم جگہوں پر بھی احتجاج کر سکتے ہیں۔

تیسرا راﺅنڈ
آج سب کے سامنے ہے کہ نومئی کی غلطی کس قدر بھاری پڑی۔ ایک سال میں تحریک انصاف نے جو سیاسی کمائی کی، اس ایک دن میں سب اجاڑ کر رکھ دی۔نو مئی کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ تحریک انصاف کے بخیے ادھیڑ دئیے گئے۔ ان کی اعلیٰ قیادت میں سے بہت سوں کو پارٹی چھوڑنی پڑی، بے شمار کارکن گرفتار ہوئے، بہت سے سنگین مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سب کچھ درہم برہم ہوگیا۔ وہ الیکشن جو بالکل سامنے جیتا ہوا نظر آ رہا تھا، آج وہ صحرا کے دھوکہ دینے والے سراب جیسا لگ رہا، بہت دور، ناممکن۔

اس تیسرے راﺅنڈ میں پارٹی توڑی گئی، لیڈر الگ ہوئے، الیکٹ ایبلز کا ایک حصہ چھوڑ گیا۔ خان پر بے شمار نئے مقدمات قائم ہوئے، انہیں کئی کئی عدالتوں میں پیش ہو کر ضمانت میں توسیع کرانا پڑرہا ہے۔ زماں پارک اجڑ چکا ہے، وہاں کارکن ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ خان صاحب کو ہر روز سوشل میڈیا پر اپنی تقریر نشرکرانا پڑتی ہے تاکہ ان کا اپنے کارکنوں سے رابطہ اور تعلق قائم رہے۔

اہم مقدمات
دوسرے اور تیسرے راﺅنڈ میں دیکھا گیا کہ کون سے ایسے مقدمات ہیں جن میں عمران خان کو سزادینا ممکن ہے۔ بعض مقدمات کا مقصد صرف عمران خان کو ڈسٹرب کرنا اور تھکانا ہی تھا، جیسے کوئٹہ میں وکیل کے قتل کا مقدمہ یا کارکن ظل شاہ کا مقدمہ وغیرہ۔ البتہ تین چار مقدمات ایسے تھے جن میں عمران خان مخالف کیمپ کو پوٹینشل نظر آ رہا تھا۔

ان میں توشہ خانہ کیس قابل ذکر ہے۔ اب اسی کیس میں خان صاحب کو سزا ملنے کا سب سے زیادہ امکان لگ رہا ہے۔ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کیس چل رہا ہے اور فاضل سیشن جج صاحب جس تندہی اور جوش وخروش سے اس کیس کی روزانہ سماعت فرمانے کے درپے ہیں، اس سے لگتا نہیں کہ عمران خان کو اگست کا مہینہ آزادی میں دیکھنا نصیب ہو۔ حیرت ہے کہ سیشن کورٹ جہاں برسوں کیسز چلتے ہیں، وہاں ایک کیس کو روزانہ سماعت کے ذریعے جلد نمٹانے کاآہنی عزم کیا گیا ہے۔ خیر ایسا بھی ہوتا ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کہاں گیا؟
دیگر دوکیسز میں سے ایک جو بہت اہم تھا اور جس میں تحریک انصاف کے پھنسنے کے خاصے امکانات تھے ، وہ ممنوعہ فنڈنگ کیس تھا۔ یہ کیس مگر ڈمپ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔ دراصل اس ممنوعہ فنڈنگ کرنے والوں میں بعض اہم عرب شخصیات بھی شامل ہیں، مبینہ طور پر انہوں نے چیریٹی کے لئے بعض رقوم ہسپتال کو دیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے کمال ہوشیاری سے ہمارے دوست عرب ممالک کو باور کرایا ہے کہ ہمیں آپ کی نیک نامی عزیز ہے ، اس لئے اگرچہ اس کیس میں ہمارا مخالف عمران خان بری طرح پھنسا ہوا ہے، مگر ہم اس کیس کو نہیں چلائیں گے ۔ اسی وجہ سے آپ نے پچھلے سات آٹھ ماہ سے پارٹی فنڈنگ کیس کا نام تک نہیں سنا ہوگا۔ جبکہ اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والا فیصلہ خاصا سخت تھا اور اس میں فوجداری کارروائی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

تیسرا کیس القادر ٹرسٹ کا معاملہ ہے۔ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ دونوں میں نیب سے کام لیا جا رہا ہے۔ نیب نے ان کیسز کی تفتیش اور انکوائری کر لی ہے اور امکان ہے کہ ان دونوں میں عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کر دئیے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں فوجداری کیس الگ سے ہے جو سیشن کورٹ میں چل رہا ہے جبکہ نیب کیس الگ ہے۔

ایک کیس عدت کے دوران نکاح کا بھی ہے۔ سول جج اسلام آباد نے اس کیس میں پہلے خلاف فیصلہ دیا کہ انہیں حق سماعت حاصل نہیں۔ اس لئے کہ نکاح لاہور میں ہوا جبکہ کیس اسلام آباد میں چلایا جا رہا ہے۔ تاہم اس کیس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے فیصلہ خلاف دیا ہے اور ضلعی عدالت کے مطابق حق سماعت حاصل ہے۔ اب سول جج کی عدالت میں یہ کیس بھی چلنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کیس میں عمران خان کے نقطہ نگاہ سے بری خبر یہ ہے کہ نکاح خواں مفتی سعید اور نکاح کے گواہ عون چودھری دونوں نے عمران خان کے خلاف گواہی دی ہے۔ خیر یہ کیس ابھی بہت ابتدائی مراحل میں ہے۔

چوتھا راﺅنڈ
دوسرے اور تیسرے راﺅنڈ میں عمران خان کے خلاف پونے دو سو کے لگ بھگ مقدمات تو درج ہوچکے ہیں، انہیں مختلف جگہوں پر پیش بھی ہونا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود معاملات ابھی فیصلہ کن نوعیت تک نہیں پہنچ رہے ۔ ضلعی عدالت اسلام آباد کا فیصلہ خلاف آجائے تو اس سے یہ نفسیاتی تاثر تو قائم ہوگا کہ عمران خان اب سزایافتہ ہیں، مگر امکان یہی ہے کہ ہائی کورٹ میں کیس کا فیصلہ معطل ہوجائے اور سزا بھی معطل ہوجائے کہ عام طور سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کا فیصلہ ہونے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ حکومت کے پاس مسئلہ یہی ہے کہ وقت بالکل نہیں بچا۔

ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ امکان یہی ہے کہ چند دنوں میں اس کا فیصلہ آ جائے گا، مگر بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ ملٹری کورٹس میں کچھ شرائط کے ساتھ سویلینز کے ٹرائل کی اجازت مل جائے تب بھی ہائی کورٹ میں ان کی اپیل کا حق رہے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر اردو محاورے کے مطابق پرنالہ وہیں کا وہیں رہے گا۔

اعظم خان کا اعترافی بیان کیوں؟
اسی وجہ سے اب سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے اعترافی بیان کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ وہ پچھلے چند ہفتوں سے غائب تھے اور امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو رہا ہے اور وہ کسی نہ کسی حد تک کمپرومائز ہوجائیں گے۔ اب دفعہ ایک سو چونسٹھ کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ان کے اعترافی بیان سے سائفر کا معاملہ پھر سے ابھر آیا ہے۔ ایف آئی اے کو بھی سائفر کے معاملے کی تحقیقات کی اجازت مل چکی ہے۔

یہ امکان لگ رہا ہے کہ سائفر معاملے میں عمران خان کو بعض دیگر قریبی دوستوں، ساتھیوں کی مخالفانہ گواہی کی تکلیف بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ یہ معاملہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی طرف جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو سابق وزیراعظم کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ہَنٹ عمران خان یعنی عمران خان کو قابو کرو پلان کا چوتھا راﺅنڈ ہے۔ اس میں گھیرا بہت زیادہ تنگ ہوچکا ہے اور خان صاحب کے قابل اعتماد ترین ساتھیوں کے منحرف ہونے اور مخالف ہونے کا معاملہ بن رہا ہے۔

نیوکلیس (مرکز)ٹوٹ پائے گا؟
عمران خان کے خلاف بہت کچھ ہوچکا، سیاسی طور پر بھی توڑ پھوڑ جاری ہے، مگر جب تک عمران خان جیل میں نہیں چلے جاتے، انہیں الیکشن لڑنے سے روک نہیں دیا جاتا، تب تک تحریک انصاف اپنے مرکز کے ساتھ جڑی رہے گی۔ ہنٹ عمران خان پلان کا بنیادی نکتہ اسی مرکز کو توڑنا اور بکھیرنا ہے۔

بظاہر عمران خان کے لئے آنے والے دن بہت مشکل ہوں گے۔ انہیں اپنے سائے سے بھی خوف آئے گا اور ان کے دائیں بائیں کوئی ایسا قابل اعتماد ساتھی نہیں رہ جائے گا جس سے وہ اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام پلانز پر پوری طرح عمل درآمد ہوجائے گا یا قدرت کسی حیلے سے سابق وزیراعظم کو بچالے گی ؟

Related Posts